ایک سچہ واقعہ

ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﭽﮧ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﺟﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﯿﻮﻣﻨﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ  ﭼﻞ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ، ﯾﯿﻠﻮ ﺳﭩﻮﻥ ﻧﯿﺸﻨﻞ ﭘﺎﺭﮎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﺁﮒ ﺑﮭﮍﮐﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ کچھ ﺍﮌﺍ  ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺌﯽ، ﮨﺮ ﺷﮯ ﺭﺍکھ ﺑﻦ ﮔﺌﯽ، کچھ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺑﭽﺎ۔ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺭﯾﺴﺮﭺ ﭨﯿﻢ  ﺍﺩﮬﺮ ﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺟﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺭﺧﺖ ﮐﮯ ﺗﻨﮯ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ  ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭽﺎﺭﯼ ﺟﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﮍﯾﺎ ﻣﻠﯽ۔

ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ  ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﺍﯾﺴﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻻﺅ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﺎ۔ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺑﮭﯽ  ﺁﮒ ﯾﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺩیکھ ﮐﺮ ﺍﮌ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﭻ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺭﯾﺴﺮﭼﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮈﻧﮉﯼ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺳﺮﮐﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺳﮯ ﺗﯿﻦ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ  ﭼﮍﯾﺎ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﭽﮯ ﻧﮑﻠﮯ۔ ﻭﮦ ﭼﮍﯾﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺧﻮﺩ ﮔﮭﻮﻧﺴﻠﮯ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ  ﺍﺩﮬﺮ ﻻ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺟﺐ ﻭﮦ ﯾﮧ سمجھ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺁﮒ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ  ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﺁﮒ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺩ ﮔﺌﯽ۔ ﻭﮦ  ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻼ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ بیٹھ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﺣﺮﺍﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﭻ ﮐﯽ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﮑﻠﯿﻒ  ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺕ ﭼﻦ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ  ﮐﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﭽﮯ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﭻ ﮔﺌﮯ۔ ﺍﺱ ﭼﮍﯾﺎ ﮐﯽ ﺑﺎﮈﯼ ﻧﯿﺸﻨﻞ  ﺟﯿﻮ ﮔﺮﺍﻓﮏ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮈﺍﮐﯿﻮﻣﻨﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ۔ ﯾﮧ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ  ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺒﻖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﻤﺘﺎ ﮐﯿﺎ ﭼﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺳﺘﺮ  ﻣﺎﺅﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ، ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﻧﺠﺎﻥ  ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺑﻼﻭﺟﮧ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔
 اللہ ھمیں عمل کی توفیق دے

سلجوقی سلطنت

                              سلجوقی سلطنت

سلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔

طغرل بے اور چغری بیگ!

طغرل بے سلجوق کا پوتا تھا جبکہ چغری بیگ اس کا بھائی تھا جن کی زیر قیادت سلجوقیوں نے غزنوی سلطنت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ابتداء میں سلجوقیوں کو محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ خوارزم تک محدود ہوگئے لیکن طغرل اورچغری کی زیرقیادت انہوں نے 1028ء اور 1029ء میں مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ ان کے جانشینوں نے خراسان اور بلخ میں مزید علاقے فتح کئے اور 1037ء میں غزنی پر حملہ کیا۔ 1039ء میں جنگ دندانیقان میں انہوں نے غزنوی سلطنت کے بادشاہ مسعود اول کو شکست دے دی اور مسعود سلطنت کے تمام مغربی حصے سلجوقیوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ 1055ء میں طغرل نے بنی بویہ کی شیعہ سلطنت سے بغداد چھین لیا۔

الپ ارسلان!
الپ ارسلان اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد سلجوقی سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 1064ء میں آرمینیا اور جارجیا کو سلطنت میں شامل کر لیا۔ وہ ایک بہت بیدار مغز اور بہادر حکمران تھا ۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور ماوراء النہر کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی قلمر و میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔ بازنطنیوں نے حملہ کیا تو 26 اگست 1071ء کو ملازکرد کے مقام پر ان کو عبرتناک شکست دی۔ اور قیصر روم رومانوس چہارم کو گرفتار کر لیا۔ قیصر روم نے نہ صرف تاوان جنگ ادا کیا اور خراج دینے پر رضامند ہوا۔ بلکہ اپنی بیٹی سلطان کے بیٹے سے بیاہ دی اور آرمینیا اور جارجیا کے علاقے اس کو دے دیئے ۔ خوارزمی ترکوں کے خلاف ایک مہم میں قیدی بناکر لائے گئے خوارزمی گورنر یوسف الخوارزمی کی تلوار سے شدید زخمی ہوا اور 4 دن بعد 25 نومبر 1072ء کو محض 42 سال کی عمر میں انتقال کرگیا ۔ الپ ارسلان کو مرو میں ان کے والد چغری بیگ کی قبر کے برابر میں دفن کیا گیا۔

ملک شاہ!

لپ ارسلان کے جانشیں ملک شاہ اول اور ان کے دو ایرانی وزراء نظام الملک اور تاج الملک کی زیر قیادت سلجوق سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کی مشرقی سرحدیں چین اور مغربی سرحدیں بازنطینی سلطنت سے جاملی تھیں۔ ملک شاہ نے دار الحکومت رے سے اصفہان منتقل کر دیا۔ اس دوران میں نظام الملک نے بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی۔ ملک شاہ کے دور حکمرانی کو سلجوقیوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ 1087ء میں عباسی خلیفہ نے ملک شاہ کو "سلطان مشرق و مغرب" کا خطاب کیا۔ ملک شاہ کے دور میں ہی ایران میں حسن بن صباح نے زور پکڑا جس کے فدائین نے نے کئی معروف شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

سلطنت کی تقسیم!
1092ء میں ملک شاہ اول کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں اور 4 بیٹوں کے درمیان میں اختلافات کے باعث سلطنت تقسیم ہوگئی۔ اناطولیہ میں قلج ارسلان اول ملک شاہ اول کا جانشیں مقرر ہوا جس نے سلطنت سلاجقہ روم کی بنیاد رکھی۔ شام میں اس کا بھائی توتش اول حکمران بنا جبکہ ایران میں اس کے بیٹے محمود اول نے بادشاہت قائم جس کی اپنے تین بھائیوں عراق میں برکیارق، بغداد میں محمد اول اور خراسان میں احمد سنجر سے تصادم ہوتا رہا۔

توتش اول کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں رضوان اور دوقق کو بالترتیب حلب اور دمشق میں وراثت میں ملا اور ان دونوں کی نااتفاقی کے باعث شام کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا جن پر مختلف امراء کی حکومتیں تھیں۔

1118ء میں احمد سنجر نے سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھتیجے اور محمد اول کے بیٹے محمود ثانی نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور بغداد میں دار الحکومت قائم کرتے ہوئے اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا تاہم 1131ء میں بالآخر احمد سنجر نے اسے ہٹادیا۔

صلیبی جنگیں!
سلجوقی سلطنت کے سیاسی زوال کے آغاز اور ملک بھر میں پھیلی خانہ جنگی اور طوائف الملوکی سے مسلم امہ کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے والی آخری قوت کا بھی خاتمہ ہونے لگا تو اہلیان یورپ نے اس کو بھرپور موقع جانا اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس طرح اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال مسلمانوں پر مسلط رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز پر یورپ سے بیت المقدس کے راستے میں عیسائیوں کا سب سے اولین ٹکراؤ اناطولیہ سلجوقی مسلمانوں کی حکومت سلاجقۂ روم سے ہوا۔ عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس جنگ سے قبل ہی سلجوق فاطمیوں کے ہاتھوں فلسطین گنواچکے تھے۔ صلیبیوں اور منگولوں کے حملے سے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور بالآخر 1260ء کی دہائی میں منگولوں کی اناطولیہ پر چڑھائی کے ساتھ آخری سلجوق سلطنت (سلاجقہ روم) کا بھی خاتمہ ہو گی

بابا کھڑک سنگھ

‏تاریخ کا ان پڑھ جج جسٹس بابا کھڑک سنگھ
۔
بابا کھڑک سنگھ پٹیالہ کے مہاراجہ کے ماموں تھے۔ ایک لمبی چوڑی جاگیر کے مالک تھے۔
جاگیرداری کی یکسانیت سے اکتا کر ایک دن بھانجے سے کہا، " تیرے شہر میں ‏سیشن جج کی کرسی خالی ہے۔
( اس دور میں سیشن جج کی کرسی کا آرڈر انگریز وائسرائے جاری کرتے تھے )
تُو لاٹ صاحب کے نام چھٹی لکھ دے اور مَیں سیشن ججی کا پروانہ لے آتا ہوں"
مہاراجہ سے چھٹی لکھوا کے مہر لگوا کر ماموں لاٹ صاحب کے سامنے حاضر ہوگئے۔‏وائسرائے نے پوچھا: نام
بولے "کھڑک سنگھ"
تعلیم ؟
بولے : کیوں سرکار ؟
مَیں کوئی اسکول میں بچے پڑھانے کا آرڈر لے آیا ہوں؟
وائسرائے ہنستے ہوئے بولے:
سردار جی! قانون کی تعلیم کا پوچھا ہے،‏آخر آپ نے اچھے بروں کے درمیان تمیز کرنی ہے، اچھوں کو چھوڑنا ہے، بُروں کو سزا دینی ہے۔
کھڑک سنگھ مونچھوں کو تاؤ دے کر بولے، سرکار اتنی سی بات کے لئے گدھا وزن کی کتابوں کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کام میں برسوں سے پنچائت میں کرتا آیا ہوں اور ‏ایک نظر میں اچھے بُرے کی تمیز کر لیتا ہوں۔
وائسرائے نے یہ سوچ کر کہ اب کون مہاراجہ اور مہاراجہ کے ماموں سے الجھے، جس نے سفارش کی ہے وہی اسے بھگتے۔ درخواست لی اور حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب کھڑک سنگھ جسٹس کھڑک سنگھ بن ‏کر پٹیالہ تشریف لے آئے۔
خدا کی قدرت پہلا مقدمہ ہی جسٹس کھڑک سنگھ کی عدالت میں قتل کا آگیا۔
ایک طرف چار قاتل کٹہرے میں کھڑے تھے، دوسری طرف ایک روتی دھوتی عورت سر کا ڈوپٹہ گلے میں لٹکائے کھڑی آنسوں پونچھ رہی ہے۔‏جسٹس کھڑک سنگھ نے کرسی پر بیٹھنے سے پہلے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔
اتنے میں پولیس آفیسر آگے بڑھا، جسٹس کھڑک سنگھ کے سامنے کچھ کاغذات رکھے اور کہنے لگا،
مائی لارڈ ! یہ عورت کرانتی کور ہے اور اس ‏کا کہنا ہے کہ ان چاروں نے مل کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے خاوند کا خون کیا ہے۔
کیوں مائی؟ جسٹس کھڑک سنگھ نے پولیس آفیسر کی بات پوری بھی نہیں سنی اور عورت سے پوچھنے لگے کیسے مارا تھا ؟
عورت بولی، سرکار جو دائیں طرف کھڑا ہے ‏اس کے ہاتھ میں برچھا تھا، درمیان والا کئی لے کر آیا تھا اور باقی دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ یہ چاروں کماد کے اولے سے اچانک نکلے اور مارا ماری شروع کر دی اور ان ظالموں نے میرے سر کے تاج کو جان سے مار دیا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے مونچھوں کو تاؤ ‏دے کر غصے سے چاروں ملزموں کو دیکھا اور کہا کیوں بھئی تم نے بندہ مار دیا؟
نہ جی نہ میرے ہاتھ میں بیلچہ تھا کئی نہیں،
ایک ملزم نے کہا۔
دوسرا ملزم بولا: جناب میرے پاس برچھا نہیں تھا، ایک سوٹی کے آگے درانتی بندھی ‏تھی، بیری کے درخت سے ٹہنیاں کاٹنے والی۔
جسٹس کھڑک سنگھ بولے چلو، جو کچھ بھی تمہارے ہاتھ میں تھا وہ تو مر گیا نا !
پر جناب ہمارا مقصد تو نہ اسے مارنا تھا، نہ زخمی کرنا تھا، تیسرا ملزم بولا۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کاغذوں کا پلندہ ‏اپنے آگے کیا اور فیصلہ لکھنے ہی لگے تھے کہ ایک دم سے عدالت کی کرسی سے کالے کوٹ والا آدمی اٹھ کر تیزی سے سامنے آیا اور بولا، مائی لارڈ آپ پوری تفصیل تو سنیں۔ میرے یہ مؤکل تو صرف اسے سمجھانے کے لئے اس کی زمین پہ گئے تھے۔
ویسے وہ زمین بھی ابھی مرنے والے کے نام ‏منتقل بھی نہیں ہوئی اس کے مرے باپ سے، ان کے ہاتھوں میں تو صرف ڈنڈے تھے، ڈنڈے بھی کہاں، وہ تو کماد کے فصل سے توڑے ہوے گنے تھے۔
۔۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے کالے کوٹ والے کو روکا اور پولیس آفیسر کو بلا کر پوچھا یہ ‏کالے کوٹ والا کون ہے ؟
سرکار یہ وکیل ہے، ملزمان کا وکیل صفائی، پولیس آفیسر نے بتایا۔
یعنی یہ بھی انہی کا بندہ ہوا نا جو انکی طرف سے بات کرتا ہے، کھڑک سنگھ نے وکیل کو حکم دیا کہ ادھر کھڑے ہو جاؤ قاتلوں کے ساتھ۔ ‏اتنی بات کی اور کاغذوں کے پلندے پر ایک سطری فیصلہ لکھ کر دستخط کر دیے۔
جسٹس کھڑک سنگھ نے فیصلہ لکھا تھا کہ چار قاتل اور پانچواں ان کا وکیل، پانچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔
پٹیالہ میں تھرتھلی مچ گئی، اوے بچو، کھڑک سنگھ آگیا ہے جو قاتل کے ساتھ ‏وکیل کو بھی پھانسی دیتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب تک کھڑک سنگھ سیشن جج رہے، پٹیالہ ریاست میں قتل کی بہت کم واردتیں ہوئیں ۔
قاتلوں کیساتھ ساتھ اگر ان کے وکیلوں کو سزائے موت ملنے لگے تو جرائم کی شرح صفر ہونے میں دیر نہیں لگنی ۔۔۔۔۔۔
                                                                                                    

"مراد ثانی"

                              "مراد ثانی"    

تعارف:
(پیدائش: جون 1404ء— انتقال 3 فروری1451ء) 1421ء سے 1451ء تک (1444ء سے 1446ء تک کا عرصہ چھوڑ کر) سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔

ان کا دور حکومت بلقان اور اناطولیہ میں زبردست جنگوں کا دور تھا جس میں انہوں نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ انہوں نے اپنے والد محمد اول کی وفات پر محض 18 سالہ کی عمر میں تخت سنبھالا۔ ان کو سب سے پہلے بغاوتوں کا سامنا رہا تاہم وہ انہیں فرو کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے 1421ء میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا لیکن اپنے بھائی مصطفی کی جانب سے بروصہ پر حملے کی وجہ سے انہیں یہ محاصرہ اٹھانا پڑا اور انہوں نے بروصہ پہنچ کر مصطفی کو شکست دی اور اسے قتل کر دیا۔ مصطفی کو بغاوت پر آمادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور مراد ثانی نے سب کو شکست دے کر سلطنت میں شامل کر لیا۔

مراد نے 1428ء میں کرمانیوں کو شکست دی اور 1430ء میں دوسرے محاصرۂ سالونیکا کے بعد 1432ء میں وینس بھی دستبردار ہو گیا۔ اسی دہائی میں مراد نے بلقان میں وسیع علاقہ سلطنت میں شامل کیا اور 1439ء میں سربیا فتح کر لیا۔ 1441ء میں مقدس رومی سلطنت، پولینڈ اور البانیہ نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 1444ء میں جنگ وارنا میں انہوں نے یوناس ہونیاڈے کو شکست دی لیکن جنگ جلاووز میں انہیں شکست ہوئی اور دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراد ثانی اپنے صاحبزادے محمد ثانی کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئے لیکن محمد کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحیوں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر 1446ء میں مراد نے دوبارہ مسند اقتدار سنبھالی اور دوسری جنگ کوسوو میں مسیحی اتحاد کو کچل کر رکھ دیا۔

بلقان میں مسیحیوں کو عظیم شکست دینے کے بعد انہوں نے مشرق کا رخ کیا اور امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری کو شکست دی اور کرمانی امارت کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔

1450ء کے موسم سرما میں وہ بیمار پڑ گئے اور ادرنہ میں وفات پائی۔ محمد ثانی (المعروف سلطان محمد فاتح) نے ان کی جگہ تخت سنبھالا۔

سقوط بغداد

           

1258ء میں منگولوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی اور خلافت عباسیہ کے خاتمے کو سقوط بغداد
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بغداد کا محاصرہ جو ١٢٥٨ء میں ہوا ایک حملہ، جارحیت اور بغداد شہر کی بربادی تھا، اس حملہ نے بغداد کو مکمل طور پر برباد کر دیا باشندے جن کی تعداد 100،000 سے 1،000،000تهى کو شہر کے حملے کے دوران قتل کیا گیا،اور شہر جلا دیا یہاں تک کہ بغداد کے کتب خانے بھی چنگيزى افواج کے حملوں سے محفوظ نہ تھے جس میں بيت الحكمة بھی شامل ہے انہوں نے مکمل طور پر كتب خانے تباہ کر ڈالے

ہلاکو خان کی زیر قیادت منگول افواج نے خلافت عباسیہ کے دار الحکومت بغداد کا محاصرہ کرکے شہر فتح کر لیا اور عباسی حکمران مستعصم باللہ کو قتل کر دیا۔ شہر میں لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا اور کتب خانوں کو نذر آتش اور دریا برد کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد منگولوں نے شام پر حملہ کیا اور دمشق، حلب اور دیگر شہروں پر قبضہ کر لیا۔ اس شکست کے ساتھ ہی امت مسلمہ کے عروج کا دور اول ختم ہو گیا۔

منگولوں کی پیشقدمی کا خاتمہ مملوک سلطان سیف الدین قطز اور اس کے سپہ سالار رکن الدین بیبرس نے فلسطین کے شہر نابلوس کے قریب عین جالوت کے مقام پر ایک جنگ میں کیا جس میں منگولوں کو پہلی مرتبہ شکست ہوئی۔ اس جنگ میں منگولوں کی قیادت ہلاکو خان کا نائب کتبغا کر رہا تھا جو جنگ میں مارا گیا۔

پس منظر:
بغداد عباسى خلافت کا دار الحکومت تھا ،اور عباسى اسلامی خاندانوں میں سے دوسرے تھے بغداد کے عروج پر، اس کى آبادی تقریباً ایک لاکھ رہائشی تھی اور 60،000 سپاہیوں کی ایک فوج دفاع کرتى تھى.13 ويں صدی کے وسط تک خلافت اب ایک چھوٹی سی ریاست تھی تاہم خلیفہ کا منصب تھا اور یہ مملوک یا ترک سرداروں کے کنٹرول میں تھا اور اسكى اب بھی بڑی علامتی اہمیت تھی اور بغداد اب بھی ایک امیر اور مہذب شہر تھا۔ ہلاكو خان کے محاصرہ سے پہلے، جنرل بیجو کی کمان میں منگولوں نے 1238، 1242 اور 1246 میں جدید عراق پر متعدد مرتبہ حملہ کیا تھا لیکن اس شہر پر نہیں۔

فوج کی تشکیل:
1257 میں منگول حکمران مونكو خان نے عباسى خلافت پر غالب آنے کا فیصلہ کیا یہ جان کر کہ بغدادکا علاقہ ایک بڑا اور مرکزی علاقہ تھا اس نے اپنی فوج کے لیے اپنے ملک میں سے ہر دس لڑاکوں میں سے ایک کو بھرتی کیا۔ ایک مضبوط تخمینے سے یہ فوج شاید منگولوں کی طرف سے سب سے بڑی فوج تھی۔ جس کے جنگجوؤں کی تعداد لگ بھگ ایک لاکھ پچاس ہزار تھی۔ نومبر 1257 میں ہلاكو خان اور چینی کمانڈر کان گوا کی کمان میں، انہوں نے بغداد کی طرف کوچ کیا جس میں مختلف مسیحی افواج کا ایک بڑا دستہ بھی شامل تھا، ان میں سے ایک بڑا حصہ جورجيين تھا، جو اپنے دار الحکومت، تفليس کی شكست کا بدلہ لینے کے بے چین تھے جو جلال الدین خوارزم شاہ کی طرف سے دہائیوں پہلے فتح کیا گیا تھا دوسرے حصہ لینے والے مسیحی افواج میں آرمینیا کی فوج، اپنے بادشاہ کی قیادت میں تھى اور سلطنت انتاکیا سے کچھ فرانسیسی دستے تھے۔ عصر حاضر کا فارسی مبصر علاءالدين عطا الملك جويني ہمیں بتاتا ہے کہ محاصرے کے شرکاء تقریباً 1،000 چینی آرٹلری کے ماہرین تھے اور وہاں ارمینیائی، جورجيين، فارسی اور ترک بھی تھے۔

محاصرہ:
بغداد کے محاصرہ سے پہلے، ہلاكو خان نے بآسانی لر کے شہركو تباہ کر ڈالا اور اس کی دہشت سے تو حشّاشين‎ اتنا گھبرا گئے کہ انہوں نے 1256 میں ایک لڑائی کے بغیراپنے ناقابل تسخیرگڑھ قلعة ألموت میں ہتھیار ڈال دئے . پھر وہ بغداد چلا گیا۔ مونكو خان نے اپنے بھائی کو حکم دیا کہ وہ خلافت کو چھوڑ دیں اگر وہ منگولوں كى فرماں برداری قبول کرتے ہیں۔ بغداد کے قریب، ہلاكو خان نے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا، لیکن خلیفہ، معتصم، نے انکار کر دیا۔ کئی وجوہات کی بنا پر، خلیفہ، معتصم حملے کے لیے تیاری کرنے میں ناکام رہا تھا؛ اس نے نہ لشکر جمع کیے اور نہ ہی شہر کی دیواروں کو مضبوط کیا اس سے بھی زیادہ بدتر اس نے ہلاكو خان کو اپنی دھمکی سے بہت زیادہ ناراض كر دیا اور اس طرح اپنے بربادی کو یقینى بنا ليا ہلاكو نے دجلة کے دونوں کناروں پر لشکر کو تعینات کیا، خلیفہ کی فوج نے مغرب سے حملہ آور افواج میں سے کچھ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا، لیکن اگلی جنگ میں ہار گئے۔ حملہ آور منگولوں نے کچھ حفاظتى بندوں کو توڑ دیا جس کی وجہ سے وہاں فوج کے پیچھے ایک سیلاب آ گیا اور وہ پھنس گئے اس طرح بہت سے فوجیوں کو ذبح کر دیا یا غرق کر دیا گیا۔ چینی دستے نے 29 جنوری کو شہر کا محاصرہ شروع کیا یہ جنگ محاصرہ کے معیار کے مطابق بہت تیز تھی :5 فروری کو منگولوں نے دیوار کا کنٹرول لے لیا۔ معتصم نے گفت و شنید كى کی کوشش کی، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا۔ 10 فروری، بغداد نے ہتھیار ڈال دئے منگولوں نے 13 فروری کو شہر میں بھاری کامیابی حاصل کی اور قتل عام اور تباہی کا ہفتہ شروع کر دیا۔

تباہی:

بيت الحكمہ، جو بے شمار قیمتی تاریخی دستاویزات اور طب سے لیکر علم فلکیات تک کے موضوعات پرلكھی گئی کتب كا گھر تھا کو تباہ کر ڈالا گیا۔ زندہ بچ جانے والوں نے کہا کہ دریائے دجلہ کا پانی ان کتب كی سیاہی کے ساتھ سیاہ پڑ گیا جو بہت زیادہ تعداد میں دریا میں پھینک دى گئی تھیں۔ نہ صرف یہ مگر کئی دنوں تک اس کا پانی سائنسدانوں اور فلسفیوں کے خون سے سرخ رہا۔ شہریوں نے فرار کی کوشش کی مگر منگول سپاہیوں نے کسی کو نہیں چھوڑا۔ مارٹن سكر لکھتا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد نوے ہزار ہو سکتی ہے (Sicker 2000, p. 111) دیگر تخمینے کافی زیادہ ہیں۔ وصّافِ کا دعوی ہے کہ انسانی زندگی کا نقصان کئی لاکھ تھا۔ ایان فريزر (دی نیویارکر سے ) کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ 200،000 سے دس لاکھ ہے۔ منگولوں نے لوٹ مارکی اور پھر مساجد، محلات، لائبریریوں اور ہسپتالوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہی عمارتوں کو جلا دیا گیا۔ خلیفہ کو گرفتار کر لیا گیا اور اس کے اپنے شہریوں کا قتل عام اور اپنے خزانے كی لوٹ مار دیکھنے کے لیے مجبور کر دیا گیا۔ منگولوں نے ایک قالین میں خلیفہ کو لپیٹ کر اپنے گھوڑوں کے نیچے کچل دیا

صبر اور برداشت


           صبر اور برداشت



میں نے جب حضرت مریم علیہ السلام کا قصہ پڑھا اور مجھے 
  اُنکی برداشت پر رشک آیا، پھر اسے اپنے اوپر سوچا کہ اگر یہ سب میرے ساتھ ھوتا؟ تو میرے رونگٹے کھڑے ھو گئے کہ جو لوگ انکو باتیں کرتے تھے اگر میرے اوپر ھوتیں تو؟ ناقابل برداشت!

میں نے حضرت آسیہ علیہ السلام کا قصہ پڑھا جو کہ فرعون کی زوجیت میں تھیں، تو اُن کے صبر پر رشک آیا، اگر آج ھماری کسی بہن کا شوھر انہیں کچھ کہہ دے تو آسمان بول بول کر سر پر اٹھا لیتی ھیں۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کی پیدائش ھی بت تراش کے گھر ھوئی، گھر سے نکالے گئے، اپنا باپ ھی بیٹے کو جلانے کے لیے لکڑیاں اٹھا اٹھا کر لاتا تھا، لیکن امتحان میں کامیاب ھوئے تو ویران بیابان میں اکلوتی اولاد کو چھوڑا، اللّٰہ اکبر، پھر قربانی دینے کا حکم، آج کسی مرد میں ھے اتنا حوصلہ؟؟؟ کبھی نہیں۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری، سب کچھ چلا گیا اولاد، مال، بیویاں، سب کچھ، لیکن آزمائش پر صبر کیا، آج ھے کسی میں اتنا صبر؟؟؟ بالکل نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کو بچپن میں ان کے والد سے بھائیوں نے دور کر کے کنویں میں پھینکا، پھر غلام کے طور پر قیمت لگائی گئی، قید کاٹی، لیکن صبر کیا اور آج اگر ایسا کسی کے ساتھ ھو، تو شکوہ شروع، کہ اللّٰہﷻ میرے ساتھ ھی ایسا کیوں؟؟؟

رسول اللّٰہﷻ، حضرت محمد ﷺ نے یتیمی میں آنکھ کھولی، پھر ماں بھی چھوڑ گئیں اور مختلف آزمائشوں سے گزرتے نبوت کے مقام تک پہنچے، غزوات، بھوک، دشمنوں سے مسلسل آزمائش کی زندگی، کیا آج کوئی کر سکتا ھے یہ سب برداشت؟ بالکل نہیں۔

تو کیا یہ مثالیں ھمارے لیے کافی نہیں کہ مسلمان کی زندگی آزمائش ھوتی ھے، اور ھمیں بھی زندگی کا ایسے ھی امتحان دینا ھے اور اسی طرح صبر کرنا ھے، دشمنوں کو معاف کرنا ھے، صلہ رحمی کا سلسلہ جاری رکھنا ھے۔

ھاں واقعی! یہ زندگی گرم صحرا کی تپتی دھوپ کی مانند ھے اور ھمیں گرم ریت پر لیٹ کر سینے پر بھاری بھرکم پتھر کا بوجھ اٹھا کر؛ کبھی کچھ اس سے بڑی آزمائش ھو، سلگھتے کوئلوں پر لیٹ کر چمڑی جلا کر امتحان دیتے ھوئے بس احد، احد، احد پکارنا ھے۔

جنت ایسے ھی نہیں مل جانی، مومنوں کی سنت پر چلنا ھو گا، صبر کے ساتھ آزمائش پر پورا اترنا ھو گا۔
سورة البقرہ آیت 155
وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ بِشَیۡءٍ مِّنَ الۡخَوۡفِ وَ الۡجُوۡعِ وَ نَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَنۡفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ؕ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙ
ترجمہ
اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے ، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے

اللّٰہﷻ مُشکلات،تکالیف،پریشانیوں اور آفات میں آپکا، میرا اور سب کا حامی و ناصر هو ۔“ آمین یا ربّ العالمین!

معرکہ انوال

معرکہ انوال 

معرکہ انوال 22 جولائی 1921 میں ہونے والے معرکے انوال میں مراکشی شہزادے محمد بن عبدالکریم خطابی نے 3 ہزار مجاہدین کے ذریعے روایتی بندوقوں کے ساتھ جدید کمیائی اسلحہ، ٹینک ،گولا بارود اور توپ خانے رکھنے والی 28000 اسپینی اور فرانسیسی فوج کو عبرتناک شکست دی  15000 صلیبی فوج اس معرکے میں ماری گئی اور 700 کو مسلمانوں نے قید بنا دیا اور ان کا صلیبیوں کا کمانڈر سلفسری اس جنگ میں مارا گیا۔  ( یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلفسری اس جنگ
کی شکست کو برداشت نہ کرسکا اور اس نے خودکشی کر لی تھی) آج بھی دنیا محمد بن عبدالکریم خطابی کو گوریلا کمانڈر کے نام سے جانتی ہے جس نے نئے نئے طریقوں سے خندقیں کھودنے اور بنکر بنوائے جن سے مسلمانوں کو دشمن کو شکست دینے میں بہت زیادہ مدد ملی معرکہ انوال 20 صدی کی جدید ترین گوریلا جنگوں میں سے ایک ہے۔ ناجانے کتنے مسلمان نوجوان ہوگے جو محمد بن عبدالکریم خطابی کو جانتے بھی نہیں ہوگے.

خوش رہنے کا عجیب انداز

خوش رہنے کا عجیب انداز

    چھوٹی چھوٹی پریشانیوں.         میں خوشیوں کی تلاش

ایک خاتون کی عادت تھی کہ وہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے اپنی دن بھر کی خوشیوں کو ایک کاغذ پر لکھ لیا کرتی تھی ٬ ایک شب اس نے لکھا کہ:

میں خوش ہوں کہ میرا شوہر تمام رات زور دار خراٹے لیتا ہےکیونکہ وہ زندہ ہے اور میرے پاس ہے نا۔ یہ اللہ کا شکر ہے
میں خوش ہوں کہ میرا بیٹا صبح سویرے اس بات پر جھگڑا کرتا ہے کہ رات بھر مچھر،کھٹمل سونے نہیں دیتے یعنی وہ رات گھر پہ ہی گزارتا ہے آوارہ گردی نہیں کرتا۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ہے۔

میں خوش ہوں کہ ہر مہینہ بجلی، گیس، پانی،پٹرول وغیرہ کا اچھا خاصا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے یعنی یہ سب چیزیں میرے پاس میرے استعمال میں ہیں نا۔۔ اگر یہ نہ ہوتی تو زندگی کتنی مشکل ہوتی۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ہے

میں خوش ہوں کہ میرے کپڑے روزبروز تنگ اور چھوٹے ہورہے ہیں یعنی مجھے اللہ تعالی اچھی طرح کھلاتا پلاتا ہے اس پر بھی اللہ کاشکر ہے

میں خوش ہوں کہ دن ختم ہونے تک میرا تھکن سے برا حال ہوجاتا ہے یعنی میرے اندر دن بھر سخت کام کرنے کی طاقت ہے نا۔۔۔ اور یہ طاقت اور ہمت صرف اللہ ہی کے فضل سے ہے

میں خوش ہوں کہ روزانہ اپنے گھر کا جھاڑو پونچا کرنا پڑتا ہے اور دروازے کھڑکیاں صاف کرنا پڑتی ہیں شکر ہے میرے پاس گھر تو ہے نا۔۔ جن کے پاس نہیں ان کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ اس پر اللہ کا شکر ہے

میں خوش ہوں کہ کبھی کبھار تھوڑی بیمار ہو جاتی ہوں یعنی میں زیادہ تر صحت مند ہی رہتی ہوں۔۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ہے

میں خوش ہوں کہ ہر سال عید پر تحفے اور عیدی دینے میں پرس خالی ہو جاتا ہے یعنی میرے پاس چاھنے والے میرے عزیز رشتہ دار دوست احباب ہیں جنہیں تحفہ دے سکوں۔ اگر یہ نہ ہوں تو زندگی کتنی بے رونق ہو۔ اس پر بھی اللہ کا شکر ہے

میں خوش ہوں کہ روزانہ الارم کی آواز پر اٹھ جاتی ہوں یعنی مجھے ہر روز ایک نئی صبح دیکھنا نصیب ہوتی ہے۔۔۔ ظاہر ہے یہ اللہ کا ہی کرم ہے۔
------
دوستو! ہمیں بھی اخراجات کی کمی بیشی پر افسردہ ہونا نہیں چاہئے بلکہ چھوٹی چھوٹی پریشانیوں میں بھی خوشی تلاش کرنی چاہیئے۔