نبی آخرالزمانﷺنے فرمایا دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہوگا، دونوں پاؤں ٹیڑھے ہوں گے، جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی، رنگ سرخ یا گندمی ہوگا، سر کے بال حبشیوں کی طرح ہوں گے، ناک چونچ کی طرح ہوگی، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا، دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہوگا، اس کے ماتھے پر ک ا ف ر لکھا ہو گا جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا۔ اس کی آنکھ سوئی ہوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا، شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہوگا، ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا۔
دجال پکا جھوٹا اور اعلیٰ درجہ کا شعبدے باز ہوگا،اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہوں گی، زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گا، دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے اور درختوں پر پھل آجائیں گے، کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماؤں اور باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟ لوگ اثبات میں جواب دیں گے، اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماؤں اور باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے، نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے،
اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی، وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی، امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہرہ داری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا۔ اسلئے نامراد وذلیل ہو کر مدینہ منورہ کا رخ کرے گا۔ اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی، انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے، باہر نکلتے ہی دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا
آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اور خاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے، لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی، لٰہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال (نعوذ بااللہ) کی اجازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا ’’میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی‘‘۔ دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا، درباری فوراً اس بزرگ کے دو ٹکڑے کر دیں گے،
دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا، یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا،دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہٰی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آ گیا ہے کہ تو ہی دجال ملعون ہے،وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اس کی قوت سلب کر لی جائے گی
دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کیلئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی،اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے،دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا، ایک دن ایک سال دوسرا دن ایک مہینہ اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی کیونکہ وہ اپنے مادی و افرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہو گا۔
اسلئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل نظر آ رہی ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہوگا،حضرت امام مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گےتمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے،ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ امام مہدی دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کوارٹر ہو گ
حضرت امام مہدی ایک دن نماز پڑھانے کیلئے مصلے کی طرف بڑھیں گے تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا،نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کیلئے نکلیں گے، دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو باب لد کے مقام پر قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر و حجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے
چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گےپھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گےخنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔(مسلم، ابن ماجہ، ابودائود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد) اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا ایمان سلامت رکھے۔
دجال کا مطلب ہے مکار و فریبی،نبی اقدسﷺ نے ہر جمعہ کے دن سورہ الکہف پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کا ایک فائدہ دجال کے فتنے سے حفاظت بھی بیان فرمائی،بڑا دجال تو ہے ہی لیکن یہ جو ہر روز ہمیں گمراہوں، عیار لوگوں، فریبیوں، دھوکے بازوں، دین فروشوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی بھلی شکلوں کو دیکھ کر، ان کی چرب زبانی سن کر، ان کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر انسان بہت متاثر و مرعوب ہوجاتا ہے،بہت سے لوگ پھسل بھی جاتے ہیں اور گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں ،
ان سے ایمان و جان کو بچانے کے لیے سورہ الکہف کی حفاظتی تدبیر سے بہتر کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے ہر مسلمان کو جمعہ کے دن سورہ الکہف کی تلاوت کرنی چاہئے تاکہ اللہ کریم ہمارے ایمان، ہمارے مال، ہماری عزت و آبرو کو ان دجالوں کے فتنے سے محفوظ فرمائے ،ہر نماز میں التحیات کے آخر میں فتنہ دجال سے پناہ مانگنے کی دعا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے اسے بھی مسلسل پڑھنا چاہئے ۔
ہیکل سلیمانی درحقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی۔ جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جنات سے تعمیر کروائی تھی تاکہ لوگ اس کی طرف منہ کرکے یا اس کے اندر عبادت کریں۔
ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے
تعمیر سے پہلے یہودیوں کے ھاں کسی بھی باقاعدہ ہیکل کا نہ کوئی وجود اور نہ اس کا کوئی تصور تھا۔ اس قوم کی بدوؤں والی خانہ بدوش زندگی تھی۔ان کا ہیکل یا معبد ایک خیمہ تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ رکھا ھوتا تھا جس کی جانب یہ رخ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔
روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے " شمشاد کہتے ہیں۔ اور اسے جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیا سے ھوتا ھوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تک پہنچا تھا، اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا من و سلویٰ اور دیگر انبیا کی یادگاریں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے ھر مصیبت پریشانی کا حل لیا کرتے تھے مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں کے دوران اس صندوق کو لشکر کے آگے رکھا کرتے اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے۔
جب حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت عطا ھوئی تو آپ نے اپنے لئے ایک باقاعدہ محل تعمیر کروایا۔ ایک دن ان کے ذہن میں خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ھوں جبکہ میری قوم کا معبد آج بھی خیمے میں رکھا ھوتا ہے۔ یہ بائیبل کی روایات ہے،
جیسے بائیبل میں ہے
" بادشاہ نے کہا: ’میں تو دیودار کی شان دار لکڑی سے بنے ہوئے ایک محل میں رہتا ہوں، مگر خدا وند کا تابوت ایک خیمے میں پڑا ہوا ہے( 2۔سموئیل 4؛2)۔
چنانچہ آپ نے ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا گیا۔ ماھرین نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ناممکن ہے آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دے دیجئیے۔ چنانچہ حضرت سلیمان نے (970 ق م ۔ 930 ق م ) نے اپنے دور حکومت کے چوتھے سال میں اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ آج اس کی بناوٹ اور مضبوطی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعمیر انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی اتنے بھاری اور بڑے پتھروں کو ان جنات کی طاقت سے چنا گیا تھا جن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تھی۔ ہیکل کی پہلی تعمیر کے دوران ہی حضرت سلیمان علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن جنات کو پتہ نہ چل سکا اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر مکمل کردی۔ یہ واقعہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہوگا۔ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی روح اللہ نے دوران عبادت ہی قبض کرلی لیکن اس کی ترکیب اس طرح بنی کے آپ ایک لکڑی پر سر اور کمر رکھ کر عبادت میں مصروف ہوگئے اور اس لکڑی کے سہارے سے یوں لگتا تھا کہ آپ اب بھی عبادت ہی کررہے ہیں۔ جبکہ آپ کا انتقال ہوچکا تھا۔
بہرحال یہ ہیکل، معبد یا مسجد بہت عالیشان اور وسیع و عریض تعمیر کی گئی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اس میں تین حصے کردئیے گئے تھے بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کیا کرتے اس سے اگلے حصے میں علما جو کہ انبیا کی اولاد میں سے ھوتے ان کی عبادت کی جگہ تھی اس سے اگلے حصے میں جسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا تھا اس میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا۔ اس حصے میں کسی کو بھی داخل ھونے کی اجازت نہیں تھی۔ سوائے سب سے بڑے عالم پیش امام کے۔
وقت گزرتا رھا اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ھوتے رہے یہ قوم بد سے بدتر ھوتی رھی ، یہ کسی بھی طرح اپنے گناھوں سے توبہ تائب ھونے یا ان کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے یہ ایک جانب عبادتیں کیا کرتے دوسری جانب اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔ ان کی اس دوغلی روش سے اللہ پاک ناراض ھوگیا۔ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیا بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی،
ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیا بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی حتی کہ ان کی شکلیں تبدیل کرکے بندر اور سؤر تک بنائی گئیں لیکن یہ گناھوں سے باز نہ آئے تب اللہ نے ان پر لعنت کر دی۔ 586 ق۔ م میں بخت نصر نے ان کے ملک پر حملہ کیا ان کا ہیکل مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا، ہیکل میں سے تابوت سکینہ نکالا، چھ لاکھ کے قریب یہودیوں کو قتل کیا تقریبا" دو لاکھ یہودیوں کو قید کیا اور اپنے ساتھ بابل (عراق) لے گیا شہر سے باھر یہودی غلاموں کی ایک بستی تعمیر کی جس کا نام تل ابیب رکھا گیا۔ 70 سال تک ہیکل صفحہ ھستی سے مٹا رھا۔ دوسری طرف بخت نصر نے تابوت سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور اسی کہیں پھینک دیا کہا جاتا ہے اس حرکت کا عذاب اسے اس کے ملک کو اس طرح ملا کہ سن 539 ق۔ م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل ( عراق) پر حملہ کر دیا اور بابل کے ولی عہد کو شکست فاش دے کر بابلی سلطنت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ سائرس ایک نرم دل اور انصاف پسند حکمران تھا اس نے تل ابیب کے تمام قیدیوں کو آزاد کرکے ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ اور ساتھ میں ان کو ہیکل کی نئے سرے سے تعمیر کی بھی اجازت دے دی ساتھ میں اس کی تعمیر کے لئے ھر طرح کی مدد فراھم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔
چنانچہ ہیکل کی(دوسری) تعمیر 537 ق م میں شروع ہوئی۔لیکن تعمیر کا کام سر انجام دینے والوں کو اپنے ہم وطن دشمنوں کی اتنی زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تعمیراتی کام جلد ہی عملی طور پر بند ہو گیااور دارا (Darius) اوّل کے دورِ حکومت تک مداخلت ہی کا شکار رہا۔ اُس کی حکمرانی کے دوسرے سال میں حضرت زکریا علیہ السلام نے وہاں کے گورنر زروبابل اور سردار کاہن یوشواہ (یوشع) کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہیکل کی تعمیر ثانی کی دوبارہ کوشش کریں۔ انھوں نے مثبت ردِ عمل کا اظہار کیااور پوری قوم کی پر جوش تائیداور ایرانی حکام اور بذات خودبادشاہ کی اشیرباد سے ہیکلِ ثانی اپنی اضافی تعمیرات سمیت ساڑھے چار سال کے عرصے میں 520۔ 515 ق م پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
لیکن اس بار اس میں تابوت سکینہ نہیں مل سکا ۔ اس کے بارے آج تک معلوم نہیں ھوسکا کہ بخت نصر نے اس کا کیا کیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ھے کہ اس مقدس صندوق کی مزید توھین سے بچانے کے لئے اسے اللہ پاک کے حکم سے کسی محفوظ مقام پر معجزانہ طور پر چھپا دیا گیا جس کا کسی انسان کو علم نہیں۔لیکن یہودی اس کی تلاش میں پورے کرہ ارض کو کھود ڈالنا چاھتے ھیں۔
ایک اور دلچسپ بات عام طور پر تاریخ دان ہیکل کی دو دفعہ تعمیر اور دو دفعہ تباھی کا ذکر کرتے ھیں۔ تاریخ کے مطالعے سے ایک بات میرے سامنے آئی کہ ایسا نہیں ، اس ہیکل کو تین بار تعمیر کیا گیا لیکن اس کے ساتھ بھی ایک دلچسپ کہانی وجود میں آئی۔ ھیروڈس بادشاہ جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے چند سال پہلے کا بادشاہ ہے اس نے جب اس کی بہتر طریقے سے تعمیر کی نیت کی تو یہودیوں کے دل میں ایک خوف پیدا ھوا کہ اگر اسے نئے سرے سے تعمیر کے لئے گرایا گیا تو دوبارہ تعمیر نہیں ھوگا۔ ھیروڈس نے ان کو بہلانے کے لئے کہا کہ وہ صرف اس کی مرمت کرانا چاھتا ھے اسے گرانا نہیں چاھتا۔ چنانچہ سن 19 ق م میں اس نے ہیکل کے ایک طرف کے حصے کو گرا کر اسے تبدیلی کے ساتھ اور کچھ وسیع کرکے تعمیر کروایا یہ طریقہ کامیاب رھا
اور یوں یہودیوں کی عبادت میں خلل ڈالے بغیر تھوڑا تھوڑا کرکے ہیکل گرایا جاتا اور اس کی جگہ نیا اور پہلے سے مختلف ہیکل وجود میں آتا رھا۔ یہ کام اٹھارہ ماہ میں مکمل ھوا اور یوں تیسری بار ھیروڈس کے ذریعے ایک نیا ہیکل وجود میں آ گیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ھوا، اللہ کے اس رسول پر ایک بار پھر یہودیوں نے حسب معمول مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے۔ دراصل وہ اپنے مسیحا کے منتظر تھے جو دوبارہ آ کر ان کو پہلے جیسی شان و شوکت عطا کرتا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ھونے کا واقعہ پیش آیا ، آپ کے مصلوب ھونے کے 70 سال بعد ایک بار پھر یہودیوں پر اللہ کا عذاب نازل ھوا۔ اس بار اس عذاب کا نام ٹائٹس تھا۔ یہ رومی جرنیل، بابل کے بادشاہ بخت نصر سے بھی زیادہ ظالم ثابت ھوا۔ اس نے ایک دن میں لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس نے ھیروڈس کے بنائے ھوئے عظیم الشان ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور یہودیوں کو ھمیشہ کے لئے یروشلم سے نکال باھر کیا۔
یہودی پوری دنیا میں بکھر کر اور رسوا ھوکر رہ گئے۔ کم و بیش اٹھارہ انیس سو سال تک بھٹکنے کے بعد برطانیہ نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ساتھ ہی ایک ناجائز بچےاسرائیل کو فلسطین میں جنم دے دیا۔ اور یوں صدیوں سے دھکے کھانے والی قوم کو ایک بار پھر اس ملک اسرائیل میں اکٹھے ھونے رھنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن یہ قوم اپنی ھزاروں سال پرانی گندی فطرت سے باز نہ آئی ۔ یہ برطانیہ کے جنم دئیے ھوئے اسرائیل تک محدود نہ رھے ایک بار پھر ھمسایہ ممالک کے لئے اپنی فطرت سے مجبور ھوکر مصیبت بننے لگے۔ 5 جون 1967 کو اس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ 1968 میں اردن کے مغربی کنارے پر قابض ھوگئے۔ اسی سال مصر کے علاقے پر بھی کنٹرول کر لیا۔ آج اس قوم کی شرارتیں اور پھرتیاں دیکھ کر اندازہ ھوتا ہے کہ یہ آج سے دو تین ھزار سال پہلے بھی کس قدر سازشی رہے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی تھی۔ مسلمان ممالک کی بے غیرتی اور بزدلی کی وجہ سے اب اس نے پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں آگ لگا کر رکھ دی ہے۔
اب ان کا اگلا مشن جلد ازجلد اسی ہیکل کی تعمیر ھے اور اس ہیکل میں تخت داؤد اور تابوت سکینہ کو دوبارہ رکھنا ہے تاکہ
رکھنا ہے تاکہ ایک بار پھر یہ اپنے مسایا (یہودی زبان کا لفظ ) مسیحا کے آنے پر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ وہ یہ کام انتہائی تیزرفتاری سے کر رہے ھیں۔ اس ہیکل کی تعمیر کے نتیجے میں یہ پوری دنیا جنگ کی آگ میں لپٹ جائے گی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے دارالخلافہ کی تبدیلی کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن مسلمان اقوام کو کوئی پرواہ نہیں۔
آپ اندازہ کیجئے یہودیوں کو جس بستی تل ابیب میں بخت نصر نے قیدی بنا کر رکھا تھا وہ اس کو آج تک نہیں بھولے ، انہوں نے اسرائیل بنانے کے بعد اپنے ایک شہر کا نام تل ابیب رکھ لیا۔ جبکہ ھم مسلمان اس مسجد اقصی کو بھی بھول چکے ھیں جہاں ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ یہودی آج تک بار بار گرائے گئے ہیکل کو نہیں بھولے حتی کہ اس میں رکھے تابوت سکینہ کی تلاش میں پوری دنیا کو کھود دینا چاہتے ہیں جبکہ ہم کو یہ بھی یاد نہیں کہ عراق میں کتنے انبیا اولیاء کے مزارات پچھلے کچھ عرصہ میں بم لگا کر شہید کر دئیے گئے ہیں۔ وہ بھی اس تنظیم داعش نے کئے ہیں جن کے تانتے بانتے اسرائیل سے ملتے ہیں۔ جن کے لیڈر ابوبکر بغدادی کا بیان تھا خدا ہمیں اسرائیل کے خلاف جہاد کا حکم نہیں دیتا۔ اس تنظیم کی ساری توجہ مسلمانوں کو مارنے میں ہی لگی رہی اور اب تک ہے۔ کبھی مکے اور مدینے پر حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اور کبھی انتشار پھیلانے کےلئے مسلمان ملکوں میں بم دھماکے کرتے ہیں۔
قدیم زمانے میں یوریشیائی میدانوں کا وسیع و عریض علاقہ Scythian رینج کے افسانوی جنگجو خانہ بدوشوں کے کنٹرول میں تھا: ساکا، Massagetae، Sarmatians اور Scythians۔ آٹھویں صدی سے لے کر چوتھی صدی تک ہزاروں سالوں سے، وہ مشرقی اور یورپ کی تہذیبوں کو خوفزدہ کر رہے تھے: یونان، روم، مصر اور فارس۔ Saka اور Massagetae مشرقی قبائل تھے جو وسطی ایشیا میں رہتے تھے۔
Achaemenid Empire جسے اکثر پہلی فارسی سلطنت کہا جاتا ہے چھٹی صدی قبل مسیح میں ابھرا۔
فارس کے بادشاہ سائرس دوم نے میسوپوٹیمیا کے ممالک کو متحد کیا اور فوجی توسیع شروع کی۔ اس نے مصر کی وسیع فتح کا منصوبہ بنایا۔ تاہم، سائرس نے دانشمندی سے اندازہ لگایا کہ فرعون اماسیس کی پالیسی سے مضبوط ہونے والی اتنی بڑی ریاست کے خلاف جنگ مشکل ہو گی۔ سائرس نے مصر کے لیے مہم کو ملتوی کرنے اور سلطنت کی مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں پھیلے ہوئے میدانوں میں خانہ بدوش ساکا اور ماسگیٹی آباد تھے۔ میدانی قبائل کے پاس ایک متاثر کن فوجی طاقت تھی، وہ اپنی نقل و حرکت میں غیر متوقع تھے اور اس وجہ سے سال کے کسی بھی وقت فارسیوں کے زیر قبضہ وسطی ایشیائی علاقے پر حملہ کر سکتے تھے۔ 530 قبل مسیح میں سائرس دی گریٹ نے اپنی بڑی فوج کی سربراہی کی اور مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔
اس وقت، Massagetae ملکہ Tomyris کی طرف سے حکومت کیا گیا تھا. وہ Spargapises کی بیٹی تھی - تمام Massagetae قبائل کی رہنما۔ رہنما کی موت کے بعد، تومیرس کو اقتدار ان کے اکلوتے بچے کے طور پر وراثت میں ملا، لیکن بہت سے قبائلی رہنما جو اس حقیقت سے مطمئن نہیں تھے کہ ان کی رہنمائی ایک عورت نے کی تھی، اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اپنی پوری جوانی کے دوران، Tomyris Massagetae کی قیادت کے حق کے لیے لڑتی رہی اور اس نے اپنی ہمت، بہادری اور اپنے لوگوں کے لیے لگن سے ثابت کیا۔
اس بارے میں ایک کہانی ہے کہ کس طرح ٹومیرس نے خود سے شوہر کا انتخاب کیا۔ ساکا کے دوسرے قبائل کے ساتھ جنگ کے دوران، سپارگاپیسس نے مدد کے لیے اپنے اتحادی کاواد، ساکا تیگراکھاؤدا قبیلے کے سربراہ کی طرف رجوع کیا۔ اس وقت کاواد اپنی سرحدوں پر لڑ رہا تھا اس لیے اس نے اپنی بجائے اپنے پسندیدہ بیٹے رستم کو بھیجا۔ رستم جب Massagetae کے ڈیرے پر پہنچا تو وہاں بطیروں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا۔ اس مقابلے کا انعام لیڈر کی بیٹی ٹومیرس کے ساتھ شادی تھا۔ جو گھوڑوں کے مقابلے میں ٹومیرس کو پکڑنے میں کامیاب ہوا وہ اس کا شوہر ہوگا۔ ٹومیرس اپنے قبیلے کے بہترین سواروں میں سے ایک تھی، اس لیے صرف بہترین جنگجو ہی اسے پیچھے چھوڑ سکتے تھے۔ رستم نے ٹورنامنٹ جیتا۔
جب ٹومیرس کو سائرس II کے حملے کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے Massagetae کو میدان چھوڑنے کا حکم دیا۔ سائرس نے اپنی باری میں، Massagetae پر اقتدار سنبھالنے کے لیے فوجی چالاکی کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک ایلچی ملکہ ٹومیرس کو خط کے ساتھ بھیجا تھا۔ سائرس نے اپنے پیغام میں اس کی خوبصورتی اور ذہانت کی تعریف کی اور اسے تجویز کیا کہ وہ اپنے لوگوں کو خونی جنگ سے بچائے گی۔ لیکن عقلمند تومیرس نے محسوس کیا کہ فارس کے حکمران کو صرف اس کی بادشاہی کی ضرورت ہے اور اس نے انکار کردیا۔
ایسا لگتا تھا کہ فارسیوں کے لیے فوجی مہم کامیابی سے شروع ہو رہی ہے۔ خانہ بدوشوں کی حفاظت کرتے ہوئے میدانوں کی طرف پیچھے ہٹتے ہوئے، Massagetae نے شدید جھڑپوں میں ملوث نہ ہونے کی کوشش کی، جارحانہ کارروائی کرنے والی فارسی فوج سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہ دشمن کو میدان میں آمادہ کرنے کا حربہ تھا۔ جیسا کہ عام طور پر جھڑپوں کے بعد، Massagetae نے اپنے تیز رفتار گھوڑوں پر کامیابی سے تعاقب کرنے والے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس طرح، فارسی Jaxartes آئے. یہاں، سائرس نے پھر ایک چال استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک کیمپ لگانے کا حکم دیا اور تمام زخمی اور بیمار سپاہیوں کو زہر دے کر دریا کے قریب اپنی اچھی فوجوں کے ساتھ گھات لگائے۔ Tomyris Spargapises کے بیٹے کی قیادت میں Massagetae نے رات کو کیمپ پر حملہ کیا، لیکن کوئی مزاحمت نہیں ملی اور فیصلہ کیا کہ فارسی فرار ہو گئے۔ فتح کا جشن مناتے ہوئے، انہوں نے فارسیوں کی چھوڑی ہوئی زہریلی شراب پی۔ جب Massagetae اسکواڈ کا بیشتر حصہ سو گیا تو فارسیوں نے تقریباً پوری دستہ پر حملہ کر کے قتل عام کر دیا۔ ٹومیرس کا بیٹا پکڑا گیا۔
جب ملکہ ٹومیرس نے سنا کہ اس کے بیٹے اور فوج کے ساتھ کیا ہوا ہے، تو اس نے سائرس کے پاس اپنے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک ہیرالڈ بھیجا، کیونکہ وہ "طاقت کی جنگ میں نہیں دھوکہ دہی سے" پکڑا گیا تھا۔ Massagetae کی ملکہ نے فارس کے حکمران کو سختی سے تنبیہ کی: "انکار کرو، اور میں سورج کی قسم کھاتا ہوں، Massagetae کے خود مختار رب، آپ جیسے خونخوار ہیں، میں آپ کو خون سے بھر دوں گا۔" سائرس نے انکار کر دیا اور سپارگاپیسس نے خود کشی کر لی۔ سائرس کے ذریعہ Tomyris کو جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا جائے۔
جیسے ہی ٹومیرس کو اپنے بیٹے کی موت کا علم ہوا، اس نے فارسیوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میدان میں ایک جنگ تھی جس میں Massagetae نے اپنی تمام طاقت اور غصے کو فارسی فوج پر اتار دیا۔ اس لڑائی میں سائرس مارا گیا۔ ٹومیرس نے انسانی خون سے بھری جلد کو بھرنے کا حکم دیا، اس نے سائرس کا سر گور میں ڈبو دیا، یہ کہتے ہوئے کہ اس نے کارپوریشن کی توہین کی۔
یأجوج و مأجوج دو قبائل کے نام ہیں جو ایک ساتھ رہتی ہیں۔
ان کا نسب:
یہ دونو
ں قبائل حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ساتھ ہی حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں، یعنی یہ عام انسان ہیں۔
یہ نہ تو جنات ہیں، نہ خلائی مخلوق اور نہ ہی کوئی افسانوی مخلوق، جیسا کہ بعض کہانیاں بیان کرتی ہیں۔
ان کا ماضی:
یأجوج و مأجوج طویل عرصے تک باقی انسانوں سے الگ تھلگ رہے، جس کی وجہ سے وہ تہذیب و تمدن میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔
ذوالقرنین کے زمانے میں یہ لوگ دو پہاڑوں کے درمیان رہتے تھے اور لوگوں کو لوٹ مار، قتل و غارت اور فساد سے تنگ کرتے تھے۔
ایک مومن بادشاہ جو زمین پر سفر کرتا اور لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔
- اس کے پاس ایک بہت بڑی اور طاقتور فوج تھی۔
- وہ اپنے فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کرتا تھا۔
- اللہ نے اسے حکمت، علم، قوت، اور ایمان عطا کیا تھا۔
ذو القرنین اپنی عظیم فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کر رہا تھا، لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔
یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم سے ملا جو دو پہاڑوں کے قریب رہتے تھے۔
لیکن وہ ان کی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس نے ان کے درمیان ایک مترجم رکھا...
ابن کثیر اپنے تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس نے ان کے درمیان درجنوں مترجمین رکھے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔
وہ لوگ ذو القرنین سے کہنے لگے: اے ذو القرنین، ہمیں یأجوج و مأجوج سے بچاؤ۔
ذو القرنین نے پوچھا: یأجوج و مأجوج کون ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: وہ مفسد ہیں، کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں، ہمارے کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتے ہیں۔
ذوالقرنین نے اللہ کے حکم سے ان کے لیے ایک مضبوط دیوار بنا دی تاکہ یہ باقی دنیا سے الگ ہو جائیں۔
ان کی کثرت:
یأجوج و مأجوج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ قیامت کے دن، اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے:
"اے آدم! اپنی اولاد میں سے جہنم کے لیے افراد نکالو"
آدم علیہ السلام پوچھیں گے:
"کتنے؟"
اللہ فرمائیں گے:
"ہر ہزار میں سے 999 جہنم میں اور 1 جنت میں"
یہ سن کر صحابہ کرام خوفزدہ ہو گئے اور پوچھا:
"یا رسول اللہ! وہ ایک کون ہوگا؟"
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وہ ایک تم میں سے ہوگا، اور 999 یأجوج و مأجوج میں سے ہوں گے۔"
یأجوج و مأجوج کے کفریہ عقائد:
یأجوج و مأجوج کا خروج قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔
جب وہ دیوار سے باہر نکلیں گے تو زمین پر فساد مچائیں گے۔
ان کی کفر کی شدت کا یہ حال ہوگا کہ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے، اور جب وہ تیر خون سے واپس آئیں گے تو وہ دعویٰ کریں گے:
"ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر بھی غالب آ گئے۔"
ان کا انجام:
یأجوج و مأجوج کو اللہ تعالیٰ ایک خاص کیڑے (النغف) کے ذریعے ہلاک کرے گا، جو ان کی گردنوں پر حملہ کرے گا۔
ان کی لاشیں زمین کو بھر دیں گی اور بدبو پھیل جائے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعا کریں گے، تو اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان لاشوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور زمین کو پاک کرے گا۔
ان کا موجودہ مقام:
یأجوج و مأجوج کہاں ہیں؟ یہ ایک ایسا راز ہے جو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
ان کا مقام یا تو زمین کے نیچے کسی گہرائی میں ہے یا کسی ایسی جگہ پر جہاں انسانوں کی رسائی ممکن نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ روزانہ دیوار کو کھودتے ہیں، اور جب سورج کی روشنی قریب آتی ہے تو ان کا سردار کہتا ہے:
"کل دوبارہ آئیں گے، ان شاء اللہ۔"
یہی "ان شاء اللہ" کہنا ان کے آخری دن میں فیصلہ کن ہوگا جب وہ دیوار کو مکمل کھود کر باہر نکلیں گے۔اور یہ دنیا میں فساد برپا کریں گے۔
مولانا حافظ الرحمن نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی ؑ اور تمام مسلمان مل کر اللہ سے دعا کریں گے ۔ یہ ان سے جان چھڑا دیں۔
پھر ا للہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایسا کیڑ اپیدا کرے گا جو ان کی موت کا باعث بنے گا۔ پوری زمین ان کی لاشوں سے بھر جائے گی ۔ پھر اللہ کے حکم سے بارش برسے گی جو زمین کو ان تمام لاشوں سے پاک کردے گی۔
یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی ؑ پھر خروج دجال کے بعد ہوگا۔
اس وقت حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوکر دجال کو قتل کرچکیں ہوں گے۔
ان کے نکلنے کی ایک علامت بحریہ طبریہ کے پانی کا تیزی سے کم ہونا بیان کیا جاتا ہے، جس کا حدیث مبارکہ میں بھی ذکر ہے ۔ اور یہی وہ وقت ہو گا جب قیامت قریب ہو گی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے اور ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین۔
ہماری ذمہ داری:
یأجوج و مأجوج کے بارے میں ایمان رکھنا ایمان بالغیب کا حصہ ہے۔
اللہ نے ان کا ذکر ہمیں اس لیے کیا تاکہ ہم جان سکیں کہ آزمائشوں سے بچنے کے لیے ہمیں سدی بندش کی ضرورت ہے۔
اپنے اور گناہوں کے درمیان دیواریں کھڑی کریں، چاہے وہ مباح (جائز) چیزیں ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ آپ بڑی آزمائشوں سے محفوظ رہ سکیں۔
جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہر آزمائش کا سامنا کرتے ہیں۔
"جو اللہ کے لیے کسی چیز کو ترک کرتا ہے، اللہ اسے بہتر سے نوازتا ہے۔"
جب کشتیاں جلا دی گئیں اور مسلم افواج اسپین میں داخل ہوئیں۔ فتح اندلس کی سچی
داستان ۹۲ھ میں اندلس موجودہ اسپین پر عیسائی حکمراں راڈرک تخت نشیں تھا جس کو عربی
تاریخوں میں لزریق کہتے ہیں یہ نہایت بے رحم اور عیاش تھا اس کا ایک خاص شوق یہ تھا
کہ وہ اپنی رعایا کے نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کو شاہی تربیت کے بہانے اپنے زیر اثر
رکھتا تھا اور اپنی ہوس کا شکار بناتاتھا، چناں چہ اس کے ایک گورنر کونٹ جولین کی
بیٹی فلورنڈا، بھی اس کے فعل قبیحہ سے نہ بچ سکی نتیجتاً نوعمر لڑکی نے اپنے باپ
جولین کو اس حرکت سے باخبر کیا جس کی وجہ سے جولین کے دل میں راڈرک اور اس کی حکومت
کے خلاف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب اہل اسلام موسیٰ بن نصیر کی
قیادت میں شمالی افریقہ کے پیشتر حصوں کو اپنا وطن بناچکے تھے چناں چہ جولین ایک
وفد لے کر موسیٰ بن نصیر کی چوکھٹ پر حاضر ہوا اور موسیٰ کو راڈرک کی تمام کرتوت سے
آگاہ کیا اوردرخواست کی کہ وہ اسپین کو راڈرک جیسے سفاک، بدکردار، حاکم سے نجات
دلائیں جولین کی گزارش پر موسیٰ بن نصیر نے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اندلس پر
حملے کی اجازت طلب کی خلیفہ نے احتیاط کی تاکید کے ساتھ منظوری دے دی، موسیٰ نے
ابتداء میں چند چھوٹی چھوٹی مہمات طنجہ سے اندلس روانہ کیں تاکہ حالات کا صحیح
اندازہ ہوجائے یہ مہمات بہتر ثابت ہوئیں تو موسیٰ نے طارق بن زیاد کی زیر کمان ایک
بڑا لشکر اندلس پر حملہ کے لیے روانہ کیا طارق کی فوج سات ہزار جاں باز مسلمانوں
پرمشتمل تھی انہیں طنجہ سے اندلس پہنچانے کے لیے چار بڑی کشتیاں استعمال کی گئیں
جوکئی دن تک مسلسل فوجی نقل وحرکت پر نظر لگائے تھیں، بالآخر پورا لشکر اندلس کے اس
ساحل پر پہنچ گیا جو اب بھی جبل الطارق کے نام سے موسوم ہے اندلس کے ممتاز مؤرخ
مقری نے’’نفح الطیب‘‘ میں فتح اندلس کا واقعہ نہایت تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں
طارق جب کشتی پرسوار ہوئے تو کچھ دیر بعداس کی آنکھ لگ گئی توانھیں خواب میں نبی
کریم ﷺ کی زیارت ہوئی انھوں نے دیکھا کہ آں حضرتﷺ خلفائے راشدین اور بعض دیگر صحابہ
تلواروں اور تیروں سے مسلح سمندر پر چلتے ہوئے تشریف لارہے ہیں جب آپﷺ طارق بن
زیادکے پاس سے گزرے تو آپﷺ نے فرمایا’’طارق بڑھتے چلے جائو‘‘ اس کے بعد طارق نے
دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اور آپﷺ کے مقدس رفقاء اس سے آگے نکل کر اندلس میں داخل ہوگئے،
طارق کی آنکھ کھلی تو وہ بے حد مسرور تھے انہیں فتح اندلس کی خوش خبری مل چکی تھی
انھوں نے اپنے ساتھیوں کو یہ بشارت سنائی اوراس مژدہ نے مجاہدین کے حوصلوں کو کہیں
سے کہیں پہنچادیا، علاوہ ازیں ایک دیگر واقعہ بھی تاریخ اندلس میں درج ہے کہ طارق
اپنی جمعیت کے ہمراہ سرحد اندلس میں داخل ہوا اور لب ِ دریا جو شہر واقع تھے انھیں
فتح کرتا ہوا آگے بڑھا اثنائے راہ میں ایک بڑھیا نے اس سے کہا کہ اس ملک کا توہی
فاتح معلوم ہوتا ہے میرا شوہر بہت بڑا کاہن تھا وہ مجھ سے کہا کرتا کہ غیر قوم
اندلس پر قابض ہوگی اس کے سپہ سالار کی پیشانی بلند اور اس کے بائیں شانے پر تل
ہوگا اوراس تل کے گرد بال ہوں گے، میں جہاں تک غور کرتی ہوں تیری ہی پیشانی بلند
پاتی ہوں، اگر تیرے وہ تل بھی تیرے جسم پر ہے تو بیشک تو و ہی شخص ہے جس کے متعلق
میرے شوہر نے پیشین گوئی کی ہے طارق نے اپنے بائیں شانے کا تل اس بڑھیا کو دکھایا
ایک مشہور روایت ہے کہ جب جزیرہ نما اندلس کے کنارے پر طارق کا لشکر اترا تو اس نے
اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ جیت یا موت کے سوا لشکر کے سامنے کوئی تیسرا راستہ نہ
رہے اگر چہ یہ واقعہ نئی تاریخوں میں تو بہت عام ہے مگر فتح اندلس کی قدیم مستند
تاریخیں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اندلس کے نامور مؤرخ مقری نے اندلس کی ضخیم تاریخ
’’نفح الطیب‘‘ لکھی ہے جس میں یہ واقہ موجود نہیں ہے، علاوہ ازیں ابن خلدون اور
طبری وغیرہ نے بھی کشتیاں جلانے کاتذکرہ نہیں کیا اس واقعہ کو علامہ اقبال نے بھی
اپنے جذبات کا لباس پہنایا ہے؎ طارق جوبرکنارہ اندلس سفینہ سوخت٭گفتند کار توبہ
نگاہ خرد خطاست دویم از سوادِ وطن، بازچوں رسم؟٭ترک سبب زروئے شریعت کجارواست؟ بہر
کیف طارق بن زیاد اوراس کے اولوالعزم فوجیوں کی ہمت اور شجاعت کی نظیریں بھی کم
ملتی ہیں، چناں چہ طارق بن زیاد اپنے لشکر کے ساتھ جبل الفتح یا جبل الطارق کے ساحل
پر خیمہ زن ہوا اور وہ وہاں سے ’’الجزیرۃ الخضر‘‘ تک ساحلی پٹی کو کسی خاص مزاحمت
کے بغیر فتح کرلیا،لیکن تبھی راڈراک نے اپنے مشہور جنرل تدمیر(Theodomir)کو ایک
بھاری لشکر دے کر طارق بن زیاد کے خلاف روانہ کردیا، مسلمانوں کے لشکرکے ساتھ پے
درپے کئی لڑائیاں ہوئیں تدمیرکو ان میں شکست کامنھ دیکھنا پڑا حتی کہ اس کی فوج
ایمانی جذبات سے سرشار سپاہ کے سامنے بالکل منتشر ہوگئی، تدمیر نے اپنے حاکم راڈراک
کو خبر دی کہ جس قوم سے میرا واسطہ پڑا ہے وہ خداجا نے آسمان سے ٹپکی ہے یا زمین سے
ابلی ہے اب اس کامقابلہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ آپ ازخود ایک بڑا لشکر جرار لے کر
اس سے مقابلہ کریں، راڈراک نے اپنے سپہ سالار کا پیغام ملتے ہی سترہزار سپاہیوں پر
مشتمل ایک عظیم الشان محاذ تیار کیا اور طارق کی جانب کوچ کیا ادھر موسیٰ بن نصیر
نے بھی طارق بن زیادہ کی مدد کے لیے پانچ ہزار فوجیوں کی کمک روانہ کی جس کے پہنچنے
کے بعد طارق بن زیاد کا لشکر بارہ ہزار پر مشتمل ہوگیا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ کہاں
ستر ہزار کاتربیت یافتہ جرار لشکر اور کہاں بارہ ہزار عربی سپاہی جو نہ صرف اس ملک
کے لیے اجنبی تھے بلکہ اندلس کے جدید ہتھیاروں کے سامنے بھی بظاہر کچھ نہ تھے، مگر
اسلامی فوج کے خون میں جو جذبات اور انقلابات برپا تھے ان کے سامنے چاہے آہنی دیوار
یں ہوں یا سنگین پہاڑ سب بے وجود تھے، انھوں نے جس دین کا پرچم تھا ما تھا وہ نہ
صرف دنیا میں تاریکی کو مٹانے کے لیے تھا بلکہ ایک ایسا روشن نظام حیات کا بھی ضامن
تھا جس میں مادّی وروحانی دونوں کی فلاح کا رازمضمر ہے چنانچہ وادی لکہ کے مقام پر
دونوں لشکر روبرو ہوئے تو طارق نے اپنے لشکر قلیل کو جوخطبہ دیا تھا اب بھی عربی
ادب وتاریخ میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے اس کے الفاظ کیا ہیں دلوں کی تمازت وتموج
ہیں جن سے اسلامی لشکرمیں ایسا جوش ابھرا کہ وہ اپنی جانیں راہ خدا پر نچھاور کرنے
پرفوراً تیار ہوگئے اس تقریر کے ایک ایک لفظ سے طارق کے عزم، ہمت اور اور سرفروشی
کے جذبات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، خطبہ کے چند جملوں کا اردو ترجمہ یہ ہے ’’لوگو!
تمہارے لیے بھاگنے کی جگہ ہی کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے، اور آگے دشمن، لہٰذا
خدا کی قسم تمہارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تم خدا کے ساتھ کئے ہوئے عہد
میں سچے اترو اور صبر سے کام لو، یادرکھو کہ اس جزیرے میں تم ان یتیموں سے زیادہ بے
آسرا ہو جو کسی کنجوس کے دسترخوان پر بیٹھے ہوں، دشمن تمہارے مقابلے کے لیے اپنا
پورا لائولشکر اوراسلحہ لے کر آیا ہے،اس کے پاس وافر مقدار میں غذائی سامان بھی ہے
اورتمہارے لیے تمہاری تلواروں کے سوا کوئی پناہ گاہ نہیں، تمہارے پاس کوئی غذائی
سامان اس کے سوا نہیں جو تم اپنے دشمن سے چھین کر حاصل کرسکو، اگر زیادہ وقت اس
حالت میں گزرگیا کہ تم فقر وفاقہ کی حالت میں رہے اورکوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ
کرسکے توتمہاری ہوا اکھڑجائے گی، اور ابھی تک تمہارا جو رعب دلوں پر چھایا ہوا
ہے،اس کے بدلے دشمن کے دل میں تمہارے خلاف جرأت وجسارت پیدا ہوجائے گی،لہٰذا اس برے
انجام کو اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم پوری ثابت
قدمی سے اس سرکش بادشاہ کا مقابلہ کرو، جو اس کے محفوظ شہر نے تمہارے سامنے لاکر
ڈال دیا ہے، اگر تم اپنے آپ کو موت کے لیے تیار کرلو تو اس نادر موقع سے فائدہ
اٹھانا ممکن ہے۔ اور میں نے تمھیں کسی ایسے انجام سے نہیں ڈرایا جس سے میں خود بچا
ہوں نہ میں تمھیں کسی ایسے کام پر آمادہ کررہا ہوں جس میں سب سے سستی پونجی انسان
کی جان ہوتی ہے، اورجس کاآغازمیں خود اپنے آپ سے نہ کررہا ہوں یا درکھو ! اگر آج کی
مشقت پر تم نے صبر کرلیا، تو طویل مدت تک لذت وراحت سے لطف اندوز ہوں گے اللہ
تعالیٰ کی نصرت وحمایت تمہارے ساتھ ہے، تمہارا یہ عمل دنیا وآخرت دونوں میں تمہاری
یادگار بنے گا اور یادرکھو جس بات کی دعوت میں تمھیں دے رہا ہوں اس پر پہلا لبیک
کہنے والا میں خود ہوں، جب دونوں لشکر ٹکرائیں گے تو میرا عزم یہ ہے کہ میرا حملہ
اس قوم کے سرکش ترین فرد راڈرک پر ہوگا اور انشاء اللہ میں اپنے ہاتھ سے اسے قتل
کروں گا، تم میرے ساتھ حملہ کرو، اگر میں راڈرک کی ہلاکت کے بعد ہلاک ہوا تو راڈرک
کے فرض سے تمھیں سبک دوش کرچکاہوں گا اور تم میں ایسے بہادر اور ذی عقل افراد کی
کمی نہیں جن کو تم اپنی سربراہی سونپ سکو، اور اگر میں راڈرک تک پہنچنے سے پہلے ہی
کام آگیا تومیرے اس عزم کی تکمل میں میری نیابت کرنا تمہارا فرض ہوگا، تم سب مل کر
اس پر حملہ جاری رکھنا اورپورے جزیرے کی فتح کاغم کھانے کے بجائے اس ایک شخص کے قتل
کی ذمہ داری قبول کرلینا تمہارے لیے کافی ہوگا کیوں کہ دشمن اس کے بعد ہمت ہار
بیٹھے گا۔‘ طارق بن زیادہ کے سرفروش رفقاء پہلے ہی ولولۂ جنگ اور شوق شہادت سے مست
تھے طارق کے اس خطاب نے ان کے دل ودماغوں میں نیا جوش وامنگ جگادی نتیجتاً ان کے
جذبات میں وہ طوفان اٹھاکہ بحر ظلمات کی گہرائی اور جبل الطارق کی بلندی بھی ان کے
لیے بے معنی لگ رہی تھی اسلامی لشکر اپنے جسم وجان کو بھلا کر مردانہ وار لشکر عظیم
سے نبرد آزما ہوا یہ معرکہ متواتر آٹھ دن جاری رہا، وادی لکہ کی زمین شہیدان ِ
اسلام کے خون سے سرخ ہوگئی مجاہدین ملت کے اس نثار سے مستقبل کی ایک نئی تاریخ مرتب
ہونے جارہی بالآخر پیغمبر اسلام ﷺ کی پیشین گوئی حقیقت میں بدل گئی چناں چہ فتح
ونصرت نے ان دلیر شجاع مسلمانوں کے قدم چومے، راڈرک کا لشکر بری طرح پسپا ہوا اور
راڈرک بھی اسی جنگ میں مارا گیا بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے خود طارق بن
زیاد نے قتل کیا اور بعض میں ہے کہ اس کا خالی گھوڑا دریاکے کنارے پایاگیا جس سے
قیاس ہوتا ہے کہ وہ دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوا، فتح لکہ کے بعد مسلمان اندلس کے دیگر
شہروں پر بھی اپناقبضہ جماتے چلے گئے ان فتوحات نے واضح کردیا کہ یورپ کے وسیع
سمندر اور بحری بیڑے مسلمانوں کے بلند حوصلوں اور جذبات کو نہیں روک سکتے اندلس کی
فتح گوکہ یورپ کے داخلے کا سنگ ِ میل تھا۔چناں چہ مسلمانوں کی پیش قدمی جاری رہی
یہاں تک کہ وہ فرانس میں داخل ہوئے اور کوہ نیری نیز کے دامن تک اپنے پرچم لہرانے
میں کامیاب رہے
ابتدائی اسلامی تاریخ میں اہم شخصیات، واقعات، اور مکانات کا ذکر ہوتا ہے جو اسلام کی بنیاد کے لیے نہایت اہم ہیں۔
حیاتِ نبی اکرم ﷺ
قرآن کی وحی:
حضرت محمد ﷺ پر پہلی وحی غارِ حرا میں نازل ہوئی۔
یہ وحی قرآن مجید کی شکل میں تدریجاً 23 سال تک نازل ہوتی رہی۔
مکہ مکرمہ:
دعوت ِ اسلام کی ابتدا مکہ سے ہوئی۔
مکہ والوں کی مخالفت اور حضور ﷺ کے ساتھیوں کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
ہجرت مدینہ:
مکہ سے مدینہ کی ہجرت اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔
مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا۔
خلافتِ راشدہ
حضرت ابو بکر صدیقؓ (632-634):
خلافت کے آغاز میں ارتداد کی جنگیں لڑیں اور علاقہ ء عرب میں امن کو بحال کیا۔
حضرت عمر فاروقؓ (634-644):
عراق و ایران اور شام و مصر کو مفتوح کیا۔
انتظامی اصلاحات: صوبے، قضا، پولیس اور مالیات کے محکمے قائم کیے۔
حضرت عثمان غنیؓ (644-656):
قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع کیا۔
فتوحات کا دائرہ مزید وسیع ہوا۔
حضرت علی مرتضیؓ (656-661):
داخلی شورشوں اور فتنے کا سامنا کیا۔
جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے اہم معرکے ہوئے۔
بنو امیہ کی خلافت (661-750)
معاویہ بن ابو سفیانؓ:
خلافت کی ابتدا حضرت معاویہ کی بیعت سے ہوئی۔
دمشق کو دار الحکومت بنایا۔
توسیعِ فتوحات:
اسپین، افریقہ، ایشیا مائنر تک فتوحات کیں۔
عبد الملک بن مروان:
انتظامی و اقتصادی اصلاحات اور نیا سکّہ جاری کیا۔
ولید بن عبد الملک:
تعلیم، تعمیرات اور ترقیات کا دور۔
بنو عباس کی خلافت (750-1258)
اولین خلفا:
عباسی خلافت کا قیام اموی خلافت کے زوال کے بعد ہوا۔
بغداد دار الحکومت بنا۔
ابو العباس السفاح:
اولین خلیفہ، عباسیوں کا مؤسس۔
ہارون الرشید:
سنہری دور کے آغاز اور علمی و ثقافتی ترقی۔
یہ ابتدائی اسلامی تاریخ اسلام کے عروج کا سنگِ میل شمار ہوتی ہے جس میں دینِ اسلام کا قیام اور ترقی قابل ذکر ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی پیدائش
حضرت محمد ﷺ کی پیدائش اسلامی تاریخ میں ایک انتہائی اہم واقعہ ہے جو تقریباً 570 عیسوی میں مکہ مکرمہ میں ہوئی۔ ان کی پیدائش نے دنیا کی تقدیر بدل دی اور انسانیت کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا۔
مکہ کے قبیلہ قریش کے ایک معزز خاندان میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ان کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا۔ والد کی وفات ان کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکی تھی، جبکہ والدہ کا انتقال ان کے عمر چھ سال کے قریب ہوا۔ انھیں ان کے دادا عبدالمطلب اور بعد میں ان کے چچا ابو طالب نے پالا۔
ولادت کی تفصیلات
پیدائش کا سال: عام الفیل کہلاتا ہے، جس سال ہاتھیوں نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا۔
پیدائش کا مہینہ: ربیع الاول۔
پیدائش کا دن: پیر۔
ان کے خاندان اور تربیت
دادا عبدالمطلب: محمد ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے بڑے پیار سے ان کی پرورش کی۔
چچا ابو طالب: جب عبدالمطلب کا انتقال ہوا تو محمد ﷺ کی پرورش ابو طالب نے کی۔
اہم واقعات
شیر خواری: حضرت حلیمہ سعدیہ نے محمد ﷺ کو دودھ پلایا اور ان کی ابتدائی پرورش کی۔
چھ سال کی عمر: والدہ آمنہ کی وفات۔
آٹھ سال کی عمر: دادا عبدالمطلب کا انتقال۔
بچپن کے واقعات
راست گوئی اور دیانت داری: محمد ﷺ کی بچپن سے ہی راست گوئی اور دیانت داری مشہور تھی، جس کی وجہ سے لوگ انہیں "امین" اور "صادق" کہنے لگے۔
تجارتی سفر: اپنے چچا کے ساتھ تجارتی سفر پر بھی گئے، جہاں ان کی دور اندیشی اور انصاف پروری نمایاں تھی۔
کردار کے اہم پہلو
دیا نیت داری: بچپن سے ہی محمد ﷺ نے دیانت داری اور امانت داری کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں۔
تدبر و تحمل: ان کی زندگی کے ابتدائی سالوں میں ہی ان کے تدبر و تحمل اور معاملہ فہمی کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔
ان تمام واقعات اور خصوصیات نے حضرت محمد ﷺ کی زندگی کو ابتدائی دور میں ہی تاریخی اور مذہبی لحاظ سے انتہائی اہم بنا دیا، جو ان کی نبوت سے قبل کی ایک جھلک ہے۔
نبوت کا آغاز
اسلامی تاریخ میں 200 سال کے ابتدائی دور کا سب سے اہم واقعہ نبی محمد ﷺ کی نبوت کا آغاز ہے۔ یہ واقعہ اسلامی تقویم کے چوتھے سال، یعنی 610 عیسوی میں، مکہ مکرمہ کی غارِ حرا میں پیش آیا۔
نبی محمد ﷺ کو پہلی وحی جبرائیل امین کے ذریعے پہنچی۔ اس وقت نبی محمد ﷺ کی عمر چالیس سال تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب قرآن مجید کی آیات نازل ہونا شروع ہوئیں، اور آپ ﷺ نے اللہ کی طرف سے نبوت کا اعلان کیا۔ نبوت کے آغاز میں چند اہم واقعات یہ ہیں:
غار حرا میں پہلی وحی: جبریل امین نے "اقرأ" (پڑھ) کی پہلی آیت کے ساتھ نبی محمد ﷺ کو مخاطب کیا۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کا ایمان: نبی محمد ﷺ کی پہلی حامی حضرت خدیجہ تھیں، جنہوں نے پہلے مومن ہونے کا شرف حاصل کیا۔
قریش کا ردِ عمل: مکہ کے قبائل نے ابتدا میں شدید مخالفت کی اور نبی محمد ﷺ کو اور ان کے ساتھیوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
دار ارقم کی مجلس: نبی محمد ﷺ نے دار ارقم میں مسلمانوں کو تعلیمی و روحانی تربیت دی، جو اسلام کی پہلی مدرسہ کے نام سے معروف ہوئی۔
مکی دور: یہ دور نبوت کے 13 سال پر مشتمل ہے جس میں نبی محمد ﷺ نے مکہ میں دعوت و تبلیغ جاری رکھی۔
نبوت کا آغاز رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور اسلامی تاریخ کا ایک بنیادی اور انقلابی مرحلہ تھا۔ اس دور کی خصوصیات میں صبر، استقامت، اور اللہ پر مکمل بھروسہ شامل ہیں۔ ان واقعات نے نبی محمد ﷺ کی شخصیت اور ان کے مشن کی بنیاد رکھی۔ نبوت کے آغاز نے نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی، معاشی، اور سیاسی تبدیلیوں کی راہ ہموار کی، جو اسلامی تہذیب کے قیام کی پہلی اینٹ ثابت ہوئی۔
انواقعات نے مسلمانوں کی یکجہتی اور اللہ کے حکم کی اتباع کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ نبوت کے آغاز نے قرآن مجید کی بالادستی اور رحمت اللعالمین ﷺ کے کردار کو اسلامی تاریخ میں امر کردیا۔
ہجرتِ مدینہ
ہجرتِ مدینہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، جو نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں انقلاب لایا بلکہ اسلام کی تبلیغ کو بھی ایک نئی راہ دی۔ نبی کریم ﷺ اور ان کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مکہ میں شدید مشکلات اور ظلم و ستم کا سامنا کیا، جس کے بعد ہجرت کا فیصلہ کیا گیا۔
حالات کے اسباب
مکہ میں مظالم: قریش نے مسلمانوں پر بہت زیادہ ظلم و ستم کیے، ان کی آزادی چھین لی گئی اور ان کی معیشت تباہ کر دی گئی۔
مدینہ میں قبولیت: یثرب (مدینہ) کے لوگوں نے نبی کریم ﷺ اور ان کے پیروکاروں کو خوش آمدید کہا اور ان کی مدد کی فراہمی کا وعدہ کیا۔
ہجرت کے مراحل
نبی کریم ﷺ کی روانگی: نبی کریم ﷺ نے اپنے بہترین دوست حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
غارِ ثور کی پناہ: راستے میں دونوں نے غارِ ثور میں تین دن قیام کیا تاکہ قریش کے حملوں سے بچ سکیں۔
مدینہ پہنچنا: نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ۱۲ ربیع الاول ۱ ہجری کو مدینہ میں داخلہ کیا، جہاں ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔
مہاجرین اور انصار
مہاجرین: وہ لوگ جو اپنے گھروں، اموال اور مکہ میں اپنی زمین سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے۔
انصار: مدینہ کے باشندے جو نیو کومرز کو خوش آمدید کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔
اثرات
سیاسی منظوری: مدینہ میں وفاداری اور اخوت کا مثالی نظام قائم کیا گیا جس نے اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی۔
سماجی ہم آہنگی: مواخات کا نظام قائم کیا گیا جس میں انصار اور مہاجرین کے درمیان بھائی چارے کے مضبوط رشتے قائم کیے گئے۔
دفاع اور امن: میثاقِ مدینہ کے تحت تمام باشندوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا اور بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے دفاعی حکمت عملی وضع کی گئی۔
معاہدۂ مدینہ
میثاقِ مدینہ, مسلمانوں کے درمیان باہمی عہد و پیمان اور دیگر غیر مسلم قبائل کے ساتھ معاہدے کی وضاہت کرتا ہے، جس نے پہلی اسلامی ریاست کی اساس رکھی۔ اس معاہدے کے تحت تمام شہریوں کے حقوق اور فرائض کو واضح کیا گیا، جس نے ایک منظم اور پائیدار معاشرتی اور سیاسی نظام کی بنیاد فراہم کی۔
ہجرتِ مدینہ اسلامی تاریخ کا ایک نایاب اور عبرت ناک پہلو ہے، جس سے مسلمانوں نے صبر و تحمل، قربانی اور اتحاد کی اصل مثال پیش کی۔
غزوات اور جنگیں
اسلامی تاریخ کے پہلے دو سو سالوں میں کئی اہم غزوات اور جنگیں لڑیں گئیں جنہوں نے اسلامی ریاست کے پھیلاؤ اور استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔
غزوہ بدر (2 ہجری/624 عیسوی):
یہ معرکہ اسلامی تاریخ کا پہلا بڑا معرکہ تھا، جس میں مسلمانوں نے مشرکین مکہ کو شکست دی۔
اس معرکے نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور ان کی صفوں میں یکجہتی پیدا کی۔
غزوہ احد (3 ہجری / 625 عیسوی):
اس معرکے میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا۔
یہ جنگ مسلمانوں کے لیے ایک اہم سبق تھی کہ حکمت اور اتحاد کتنے ضروری ہیں۔
غزوہ خندق (5 ہجری / 627 عیسوی):
عرب اور قریش قبائل نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کیا۔
مسلمانوں نے خندق کھود کر دشمنوں کو مدینہ میں داخل ہونے سے روکا۔
اس حکمت عملی کے باعث مسلمانوں نے دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
غزوہ خیبر (7 ہجری / 629 عیسوی):
یہ معرکہ یہودی قبائل کے خلاف لڑی گئی۔
خیبر کے قلعے مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے، جس سے ان کی معیشت مضبوط ہوئی۔
فتح مکہ (8 ہجری / 630 عیسوی):
مسلمانوں نے مکہ شہر پر بغیر خونریزی کے قبضہ کیا۔
یہ واقعہ اسلامی تاریخ کا اہم سنگ میل تھا، جس سے اسلام کی روشنی مکہ اور اس کے گرد و نواح میں پھیل گئی۔
جنگ موتہ (8 ہجری / 629 عیسوی):
یہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کی پہلی جنگ تھی جو عرب سرزمین سے باہر لڑی گئی۔
رومی سلطنت کے خلاف لڑی گئی اس جنگ نے مسلمانوں کے عسکری قوت اور جرأت کا ثبوت دیا۔
جنگ یرموک (15 ہجری / 636 عیسوی):
خلیفہ دوم عمر بن خطاب کے دور میں رومی سلطنت کے خلاف مسلمانوں کی بڑی فتح تھی۔
اس جنگ نے شام اور فلسطین کے علاقوں کے فتوحات میں مدد دی۔
فتح ایران (16-21 ہجری / 637-642 عیسوی):
خلافت راشدہ کے تحت اسلامی فوجوں نے ساسانی سلطنت کو شکست دی۔
اس سے اسلام کا اثر و رسوخ ایران تک پہنچا۔
یہ غزوات اور جنگیں نہ صرف عسکری اعتبار سے اہم تھیں بلکہ ان کے مذہبی، اقتصادی اور سیاسی پہلو بھی تھے جنہوں نے اسلامی ریاست کے نشونما میں اہم کردار ادا کیا۔
فتح مکہ
فتح مکہ اسلامی تاریخ کا وہ عظیم واقعہ ہے جو ۸ ہجری کو وقوع پذیر ہوا۔ یہ واقعہ نہ صرف اسلامی تاریخ میں اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس نے جزیرہ نما عرب میں اسلامی اطوار کی بنیاد رکھی۔ اس واقعے کا پس منظر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی پر مبنی ہے۔
۱. پس منظر: - اس واقعے کے پس منظر میں حدیبیہ کا معاہدہ شامل تھا، جو مسلمانوں اور قریش مکہ کے درمیان طے پایا تھا۔ - معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ دونوں طرف سے حملے یا جنگ کی جائے گی تو دس سال تک کوئی جنگ نہیں ہوگی۔
۲. معاہدے کی خلاف ورزی: - قریش نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی اور نبی کریمؐ کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ - نبی کریمؐ نے یہ خبر ملنے پر مکہ کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کیا۔
۳. پیش قدمی: - نبی کریمؐ نے ۱۰،۰۰۰ صحابہ کی فوج کے ساتھ مکہ کی طرف پیش قدمی کی۔ - اس بڑی تعداد میں شہر کی طرف بڑھنے کا مقصد امن و صلح کے ساتھ مکہ کو فتح کرنا تھا۔
۴. مکہ کی فتح: - بغیر کسی بڑے معرکے کے مکہ فتح ہوا اور قریش کے بہت سے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا۔ - نبی کریمؐ نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:
۵. واقعات کی اہمیت: - فتح مکہ نے اسلام کو جزیرہ نما عرب میں مضبوط کر دیا۔ - نبی کریمؐ کی رحمدلی اور عفو و درگزر نے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا دی۔
۶. اجتماعی اصلاحات: - کعبہ کو دوبارہ اسلامی رسوم کے لیے استعمال کیا گیا۔ - تین سو ساٹھ بتوں کو کعبہ سے نکال کر توڑ دیا گیا۔
فتح مکہ کے بعد، اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع ہو گیا اور عرب کے کونے کونے میں اسلام کی تبلیغ شروع ہو گئی۔ اس کے نتیجے میں اسلامی تعلیمات کا فروغ ممکن ہوا اور اسلامی معاشرت کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع فراہم ہوا۔
خلافت راشدہ
خلافت راشدہ اسلامی تاریخ کا ایک اہم دور ہے جو حضرت محمدﷺ کی رحلت کے بعد شروع ہوا۔ اس دور میں چار خلفاء راشدین نے مسلمانوں کی رہنمائی کی:
حضرت ابوبکر صدیقؓ:
حضرت ابوبکر صدیقؓ اسلامی تاریخ کے پہلے خلیفہ تھے۔
آپ کا دور حکومت 632ء سے 634ء تک رہا۔
آپ نے مختلف قبائل کو فتح کیا اور اسلامی ریاست کو مضبوط کیا۔
حضرت عمر فاروقؓ:
دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ بن خطاب تھے۔
آپ نے 634ء سے 644ء تک خلافت کی۔
آپ کے دور میں علاقے وسیع ہوئے، اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔
معاشرتی اور عدالتی اصلاحات کیں۔
حضرت عثمان غنیؓ:
تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنیؓ تھے۔
آپ کا دور حکومت 644ء سے 656ء تک رہا۔
قرآن پاک کی تصحیح و ترتیب اور اشاعت کو یقینی بنایا۔
اسلامی بحری فوج قائم کی۔
حضرت علیؓ بن ابی طالب:
آخری خلیفہ حضرت علیؓ بن ابی طالب تھے۔
آپ نے 656ء سے 661ء تک حکومت کی۔
جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے اہم واقعات پیش آئے۔
یہ دور اسلامی تاریخ میں بہترین حکمرانی کی مثال قرار دیا جاتا ہے جہاں انصاف، عدل اور اسلامی قوانین کو بنیاد بنایا گیا۔ یہ دور نہ صرف اسلامی معاشرت کی تشکیل میں اہم ثابت ہوا بلکہ اس کے بعد آنے والی حکومتوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ بھی بنا۔
اموی خلیفہ کی حکومت
اموی خلیفہ کی حکومت 661 عیسوی سے 750 عیسوی تک قائم رہی۔ یہ دور اسلامی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جہاں خلافت کی بنیادیں مضبوط ہوئیں اور اسلامی ریاست کا دائرہ کار وسیع ہوا۔
اہم حکمران
معاویہ بن ابو سفیان: اموی خلافت کے بانی۔ مکہ اور مدینہ کے بعد دمشق کو خلافت کا مرکز بنایا۔
یزید بن معاویہ: کربلا کی جنگ کے حوالے سے معروف؛ ان کے دورِ حکومت میں حضرت حسینؓ کی شہادت واقع ہوئی۔
عبدالملک بن مروان: خلافت کو مستحکم کیا، عربی کو سرکاری زبان بنایا، اسلامی سکے جاری کیے۔
ولید بن عبدالملک: فتوحات کا دور، مسجد اقصیٰ اور جامع اموی کی تعمیر۔
انتظامیہ اور حکومت
مرکزی حکومت: اموی حکومت میں مرکزی حکومت کا ڈھانچہ مضبوط ہوا۔ خلیفہ کے تحت مشیران اور گورنروں کا نظام متعارف ہوا۔
عدالتی نظام: شریعت کے مطابق فیصلے کیے جاتے تھے۔ قاضی کا عہدہ اہم تھا جو عدالتی معاملات میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا۔
فوجی فتوحات
مشرقی فتوحات: اموی حکمرانوں نے وسط ایشیا تک فتوحات کیں، جن میں سمرقند اور بخارا کی جنگیں شامل ہیں۔
مغربی فتوحات: شمالی افریقہ اور اندلس کی فتوحات، جس کے سبب اسلامی سلطنت کا پھیلاؤ ہوا۔
ثقافتی اور علمی ترقی
فن و تعمیرات: اموی دور میں فنون لطیفہ اور تعمیرات میں اہم پیشرفت ہوئی۔ دمشق کی جامع اموی اور مسجد اقصیٰ کے طرز تعمیر میں نمایاں ترقی۔
علمی مراکز: قرآنی علوم و معارف کی ترویج کے لیے مراکز قائم کیے گئے؛ دمشق اور بغداد اہم علمی مرکز بنے۔
معیشت
زراعت و تجارت: زراعت اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے نہروں کا نظام اور بازاروں کا قیام ہوا۔
سکّے: اسلامی سکے جاری کیے گئے جو معیشت کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔
عباسی خلیفہ کی حکومت
عباسی خلافت اسلامی تاریخ میں ایک اہم دور تھا۔ یہ سلسلہ 750ء میں شروع ہوا جب عباسی خاندان نے اموی خلافت کو شکست دی۔ عباسی خلافت نے اسلامی تہذیب کو ایک نیا رُخ دیا اور علمی، ثقافتی، اور سائنسی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
عباسی دور کی خصوصیات
سیاسی استحکام:
بغداد شہر کا قیام عباسیوں نے کیا جو خلافت کا مرکز بن گیا۔
خلیفہ ہارون الرشید اور اس کے بیٹے المامون جیسے حکمرانوں نے ریاست کی طاقت اور اثر کو بڑھایا۔
علمی ترقی:
بغداد کی "بیت الحکمہ" کا قیام، جو علم و حکمت کا مرکز تھا۔
یونانی، فارسی، اور ہندی علوم کا عربی میں ترجمہ ہوا۔
ثقافتی فروغ:
شاعری، ادب، اور فنونِ لطیفہ میں بڑی ترقی ہوئی۔
الف لیلہ و لیلہ (ہزار داستان) جیسی کہانیاں اسی دور کی یادگار ہیں۔
اقتصادی خوشحالی:
تجارتی راستوں کی ترقی اور نئی منڈیوں کی دریافت۔
مشرق و مغرب کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ۔
عباسی خلافت کے اہم خلیفہ
ابوالعباس السفاح:
پہلے عباسی خلیفہ جنہوں نے خلافت کی بنیاد رکھی۔
ابوجعفر المنصور:
بغداد شہر کی بنیاد ڈالی۔
ہارون الرشید:
علم و حکمت کا شوقین اور بغداد کو علمی مرکز بنایا۔
المامون:
تبادلۂ افکار کو فروغ دیا اور بیت الحکمہ کو وسعت دی۔
عباسی دور کی زوال کی وجوہات
عباسی خلافت کا زوال کچھ اہم وجوہات کی بنا پر ہوا:
علاقائی گورنروں کی بغاوت:
مرکزی حکومت کے خلاف بغاوتوں کا آغاز ہوا۔
ترکی فوج:
ترک فوجیوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور داخلی جھگڑوں نے حکومت کو کمزور کیا۔
معاشی مسائل:
اقتصادی بدحالی اور تجارتی رُکاؤٹیں۔
عباسی خلافت نے اسلامی دنیا پر گہرے نقوش چھوڑے اور آگے آنے والی سلطنتوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ اس دور نے نہ صرف اسلامی بلکہ عالمی تاریخ پر بھی بےپناہ اثرات مرتب کیے۔
عہد فاطمیہ
فاطمی خلیفہ کا عہد اسلامی تاریخ میں ایک اہم دور گردانا جاتا ہے۔ یہ عباسی خلافت کے متوازی ایک طاقتور خلافت تھی جس نے اسلامی دنیا پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
عروج و قیام
فاطمی خلافت کا قیام 909ء میں شمالی افریقہ کے علاقے قیروان میں ہوا۔ مرکزی شہر المہدیہ تھا، جو تیونس میں واقع ہے۔
فاطمی خلفاء اپنی نسبت حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ تعالی عنہا کی طرف سے اخذ کرتے ہیں۔
یہ خلافت عبید اللہ المہدی کی سربراہی میں قائم ہوئی، جس نے خلافت عباسیہ کے خلاف کامیاب بغاوت کی۔
فتوحات
فاطمی دور حکومت میں کئی اہم فتوحات ہوئیں جن میں شامل ہیں:
مصر: 969ء میں، فاطمیوں نے مصر کو فتح کیا اور شہر قاہرہ کی بنیاد رکھی۔
حجاز: مکہ اور مدینہ جیسے مقدس مقامات پر بھی فاطمی خلافت کا تسلط حاصل ہوا۔
شام: شام کا بھی بڑا حصہ فاطمیوں کے زیر اثر آیا۔
اقتصادی ترقی
فاطمی خلافت نے تجارتی راستوں اور بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا، جس سے اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوا۔ نمایاں اقدامات میں شامل ہیں:
بحری تجارت: بحرہ روم اور بحر ہند کے درمیان بحری تجارتی راستے ترقی پائے۔
زرعی اصلاحات: کھیتوں اور زرعی زمینوں میں اصلاحات لائی گئیں۔
مانیٹرنگ: مختلف شعبوں کی نگرانی کے لیے محکمہ جات قائم کیے گئے۔
تعلیم و ثقافت
فاطمی دور علمی و ثقافتی ترقی کا بھی دَور تھا۔
جامعۃ الازہر: معروف تعلیمی ادارہ جامعۃ الازہر قاہرہ میں قائم کیا گیا، جو آج بھی علمی مرکز ہے۔
کتب خانہ: قاہرہ میں کئی کتب خانوں کی بنیاد رکھی گئی، جہاں مختلف علوم و فنون پر تحقیق کی جاتی تھی۔
زوال
اس زوال کی وجوہات میں داخلی تنازعات، بیرونی حملے، اور انتظامی مسائل شامل تھے:
صلیبی جنگیں: صلیبی جنگوں نے فاطمی خلافت کو کمزور کیا۔
سلاجقه حملے: سلجوقیوں کی طرف سے بھی فاطمی خلافت پر حملے کیے گئے۔
اندرونی انتشار: داخلی تنازعات اور خسارہ جات کا بھی اہم کردار تھا۔
آخری دن
1171ء میں، صلاح الدین ایوبی نے فاطمی خلافت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد فاطمی سلطنت کی جگہ ایوبی سلطنت نے لے لی۔
فاطمی خلافت نے اسلامی تاریخ میں کئی شعبوں میں نمایاں کردار ادا کیا اور ان کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ
سلطنت عثمانیہ، جو 1299 عیسوی میں قائم ہوئی، تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ عثمانی حکمران عثمان غازی نے اس ریاست کی بنیاد رکھی اور اپنے بعد آنے والے حکمرانوں کے لئے ایک مضبوط نظام حکومت مرتب کیا۔
ابتدائی دور
عثمان غازی (1299-1326): عثمان غازی نے ریاست عثمانیہ کے ابتدائی اصول مرتب کیے اور ایک وسیع فوجی طاقت تیار کی۔
اورخان غازی (1326-1362): اورخان غازی نے سلطنت کی سرحدوں کو وسیع کیا اور ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کرائیں۔
عروج کا دور
یہ دور بنیادی طور پر سلطان محمد فاتح اور سلیمان قانونی کے حکومت کے ادوار پر مشتمل ہے۔
سلطان محمد فاتح (1451-1481): قسطنطنیہ کی فتح کرتے ہوئے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کیا۔
سلیمان قانونی (1520-1566): اس دور میں سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر پہنچی۔ مضبوط عدالتی نظام اور ثقافتی ترقی کو فروغ دیا۔
سلطنت کا انتظامی ڈھانچہ
سلطنت عثمانیہ نے مختلف شعبوں میں انتظامی ڈھانچہ قائم کیا:
فوجی انتظام: مقامی سپاہیوں، یانچر (خصوصی دستہ) کی ترقی۔
مالی نظام: ٹیکس کا مجموعہ اور ادائیگی کے نظام کو منظم کیا۔
عدلیہ: شرعی قانون کے تحت عدالتی نظام کا نفاذ۔
ثقافتی اور علمی ترقی
فن و تعمیرات: سینان معمار کی عمارتیں آج بھی اسلامی فن تعمیر کا شاہ کار سمجھی جاتی ہیں۔
علم و ادب: عثمانی دور میں شعر و شاعری، علمی کتب اور تراجم کا سلسلہ جاری رہا۔
زوال کا دور
انیسویں صدی میں مختلف عوامل کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ زوال پذیر ہوگئی۔
داخلی مسائل: ادارہ جاتی بدعنوانی، اندرونی سیاسی عدم استحکام۔
بیرونی دباؤ: یورپی طاقتوں کی طرف سے مسلسل حملے اور دباؤ۔
1869 عیسوی میں تنزیّمات (انتظامی اصلاحات) کا آغاز کیا گیا لیکن یہ اصلاحات سلطنت کو مستحکم کرنے میں ناکام رہیں۔
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ اسلامی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، جس نے کئی صدیوں تک وسیع و عریض علاقوں پر حکمرانی کی۔
ابتدائی اسلامی سائنس اور تعلیم
ابتدائی اسلامی دور میں جسے عام طور پر سنہری دور کہا جاتا ہے، سائنس اور تعلیم نے حیرت انگیز ترقی کی۔ اس دور میں مسلم علماء نے نہ صرف علمی تحقیقات میں حصہ لیا، بلکہ عالمی سطح پر نئے نظریات متعارف کرائے جو آگے جاکر جدید سائنسی علوم کی بنیاد بنے۔
اہم شعبے
مسلم علماء نے مختلف شعبوں میں نمایاں کام کیا، جن میں شامل ہیں:
ریاضی: مسلم ریاضی دانوں نے الجبرا، جیومیٹری اور مثلثیات میں اہم پیش رفت کی۔ الجبرا کا لفظ ہی عربی زبان سے ماخوذ ہے۔
فلکیات: اس شعبے میں کثیر تحقیقی کام سرانجام دیے گئے۔ انہوں نے ستاروں کی حرکت اور نظام شمسی کے بارے میں نئی معلومات حاصل کیں، جو بعد میں یورپی فلکیات دانوں کے لیے اساسی رہنما اصول بنے۔
طبیعات: ابتدائی اسلامی دور کے سائنس دانوں نے طبیعات میں مختلف تجربات کیے اور مختلف نظریات پیش کیے، جو جدید طبیعات کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
طب: اسلامی طب کے مشہور ناموں میں ابن سینا اور الرازی شامل ہیں، جنہوں نے طب میں اہم کتابیں لکھیں جو صدیوں تک بطور مرجع استعمال ہوتی رہیں۔
ادارے اور مراکز
تعلیم اور تحقیق کے فروغ کے لیے مختلف ادارے اور مراکز قائم کیے گئے۔ ان میں شامل ہیں:
بیت الحکمت: یہ عباسی دور کا ایک معروف علمی مرکز تھا جہاں بڑی تعداد میں کتابیں جمع کی گئیں اور ترجمے کیے گئے۔
مدارس: مختلف مدارس میں فلسفہ، فقہ، ریاضی، اور فلکیات کی تعلیم دی جاتی تھی۔
تراجم کا کردار
یونانی، فارسی، اور ہندوستانی علوم کے عربی میں تراجم نے اسلامی دنیا میں علمی ترقی کی رفتار کو تیز کیا۔ ان تراجم کے ذریعے اسلامی علماء نے یونانی فلسفیوں اور سائنس دانوں کے کاموں کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ ان میں مزید تحقیق و ترقی کی۔
نمایاں شخصیات
ابن الحیثم: انہوں نے آپٹکس میں نمایاں تحقیقات کیں اور روشنی کے انعکاس و انعطاف کے اصول وضح کیے۔
الخوارزمی: انہیں الجبرا کا بانی مانا جاتا ہے اور ان کی کتاب "کتاب المقدمات" مشہور ہے۔
الفارابی: الفارابی نے فلسفہ اور منطق پر اہم کام کیا اور انہیں دوسرا استاد (Second Teacher) کہا جاتا ہے۔
اس طرح ابتدائی اسلامی سائنس اور تعلیم کے دور نے مستقبل کی علمی ترقیات کی راہیں کھولیں۔
صوفیاء کرام کی خدمات
صوفیاء کرام نے اسلامی معاشرت اور تہذیب کے فروغ میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کی خدمات درج ذیل ہیں:
تبلیغ اسلام
صوفیاء کرام نے خدا کی محبت اور بندگی کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔
انسانی خدمت
صوفیاء کرام نے معاشرتی خدمت کو اپنی عبادت کا جزو بنایا اور خود کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کردیا۔
تصوف اور روحانیت
تصوف کی تعلیمات کا فروغ بھی صوفیاء کرام کا بڑا کارنامہ ہے۔
ادبی خدمات
انہوں نے ادب، شاعری، اور تصنیف و تالیف میں بھی بڑی خدمات انجام دیں۔
حسن اخلاق
صوفیاء نے اپنے حسن اخلاق و کردار سے لوگوں کو عزت و احترام، بردباری اور محبت کی طرف راغب کیا۔
محبت اور امن کا پیغام
ان کی تعلیمات میں امن، محبت، اور بھائی چارے کا درس نمایاں رہا۔
نمایاں صوفیاء کرام
حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش: جو نہ صرف لاہور بلکہ برصغیر میں اسلامی تعلیمات کا نور پھیلایا۔
حضرت معین الدین چشتی: جنہوں نے اجمیر شریف کو اپنا مرکز بنایا اور لاکھوں لوگوں کو اسلام کی طرف راہ دکھائی۔
حضرت نظام الدین اولیاء: دہلی میں اپنی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے متعدد لوگوں کو اسلام کی حقیقی روح سے آشنا کیا۔
حضرت بابا فرید الدین گنج شکر: جنہوں نے پنجاب کے علاقے میں اپنی تعلیمات کا جادو جگایا۔
علمی و فکری اثرات
صوفیاء کرام کی علمی و فکری کاوشوں نے نہ صرف معاشرتی ڈھانچے کو مضبوط کیا بلکہ عدلیہ و نظام حکومت پر بھی گہرا اثر ڈالا۔
سماجی مساوات
صوفیہ نے سماجی مساوات اور انصاف کا درس دیا، جس سے طبقاتی فرق ختم ہونے میں مدد ملی۔
تعلیم گاہیں
صوفیاء کرام نے مدرسے اور خانقاہیں قائم کیں جہاں طلبہ کو روحانی و علمی تعلیمات دی جاتی تھیں۔
خانقاہیں
مدرسے
ہمہ گیر شخصیت
صوفیہ کرام کی شخصیت ہمہ گیر اور جامع تھی، جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا۔
صوفیاء کرام کی خدمات کو کسی بھی مسلم معاشرے کی تاریخ کا لازمی حصہ سمجھا جائے گا۔ ان کی روحانی روشنی آج بھی لوگوں کے دلوں میں مقصد حیات پیدا کرتی ہے۔
تاریخی مساجد اور اسلامی فن تعمیر
اسلامی تاریخ میں مساجد اور اسلامی فن تعمیر کی ایک منفرد اہمیت رہی ہے۔ ان عمارتوں نے نہ صرف مذہبی عاملین کو عبادت کے لئے خوبصورت مقامات فراہم کئے ہیں بلکہ اسلامی ثقافتی ورثے کو بھی عیاں کیا ہے۔
اہم تاریخی مساجد
مسجد الحرام:
مقام: مکہ مکرمہ، سعودی عرب
اہمیت: مسلمانوں کا مقدس ترین مقام، خانہ کعبہ کی موجودگی
مسجد النبوی:
مقام: مدینہ منورہ، سعودی عرب
اہمیت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہ، اسلامی تاریخ کا اہم مرکز
جامع مسجد قرطبہ:
مقام: قرطبہ، اسپین
اہمیت: اسپین میں اسلامی سلطنت کا ایک آئکن، ایک نادر فن تعمیر کی مثال
اسلامی فن تعمیر کی خصوصیات
اسلامی فن تعمیر تاریخی لحاظ سے کئی منفرد خصوصیات رکھتا ہے:
گنبد:
وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے گنبد، اسلامی فن تعمیر کی شانسمت سمجھے جاتے ہیں۔
مینار:
اذان دینے کے لئے بلند مینار مساجد کی پہچان ہیں۔
آرکس (محرابیں):
اینٹ اور پتھر سے بنے خوبصورت آرکس، جو اسلامی فن تعمیر کا جوہر ہیں۔
خطاطی اور نقاشی:
قرآنی آیات کی خطاطی، نقاشی اور موزیک ورک، عمارتوں کی زینت بنتے ہیں۔
نمایاں تاریخی مثالیں
تاج محل:
مقام: آگرہ، بھارت
خصوصیات: سفید سنگ مرمر کی عمارت، اسلامی فن تعمیر کا بہترین نمونہ
مکہ مسجد:
مقام: حیدرآباد، بھارت
خصوصیات: عظیم کمروں اور محرابوں کی تعمیر، اسلامی خطاطی
اسلامی فن تعمیر کا ورثہ
اسلامی فن تعمیر کی خصوصیات ان عمارتوں کو نہ صرف مذہبی بلکہ ثقافتی اور سیاحتی اہمیت بھی دیتے ہیں۔ اسلامی عمارتیں، گنبد، مینار، اور خوبصورت نقش و نگار، مسلم دنیا کے فن تعمیر کی ترقی اور جدت کو مترجم کرتے ہیں۔ یہ عمارتیں مذہبی معنویات کے ساتھ ثقافتی عظمت کا بھی پتا دیتی ہیں۔
مغلیہ سلطنت کا آغاز
مغلیہ سلطنت کی بنیاد انیس سو چھبیس (1526) میں رکھی گئی جب ظہیرالدین محمد بابر نے دلی کے سلطان ابراہیم لودھی کو پانی پت کی پہلی جنگ میں شکست دی۔ اس جنگ کی فتح نے مغلیہ سلطنت کو ہندوستان کے بڑے حصے پر قابض کر لیا۔
بابر نے اپنی قیادت میں مختلف اصلاحات کیں:
فوجی نظم: بابر نے جدید فوجی ساز و سامان کو اپنایا، جن میں توپ خانہ اور جدید جنگی تکنیک شامل تھیں۔
انتظامیہ: بابر نے مرکزی حکومت کی بنیاد رکھی اور مختلف صوبوں میں گورنر مقرر کیے۔
بابر کے بعد ان کا بیٹا نصیرالدین محمد ہمایوں سلطنت کا وارث بنا۔ تاہم، ہمایوں کو شیر شاہ سوری کے خلاف شکست کا سامنا کرنا پڑا اور سلطنت عارضی طور پر زوال پذیر ہو گئی۔
شیر شاہ سوری کے دور حکومت میں:
سڑکوں کی تعمیر: معروف "گرینڈ ٹرنک روڈ" تعمیر کی گئی۔
انتظامی اصلاحات: زمین کے بندوبست اور خاصہ جات کا نظام متعارف کرایا گیا۔
ہمایوں نے دوبارہ سلطنت واپس حاصل کی لیکن جلد ہی ان کا انتکال ہو گیا اور ان کے بیٹے، جلال الدین اکبر نے تخت سنبھالا۔ اکبر نے مغلیہ سلطنت کی اصلی شان و شوکت بحال کی۔
اکبر کے دور میں:
دینِ الٰہی: مختلف مذاہب میں ہم آہنگی قائم کرنے کی کوشش۔
انتظامی وحدت: صوبا داروں کی تقرری اور منظم نظام۔
فوجی اصلاحات: منظم سلطنتی فوج کی تشکیل۔
ثقافت و تعلیم: فارسی ادب اور فنون لطیفہ کی ترویج۔
مغلیہ سلطنت کے ابتدائی دور میں حکومت کی توسیع اور استحکام کی کوششیں کامیاب ہوئیں، جس کی بدولت بعد میں آنے والے مغل شہنشاہوں کو ایک مضبوط بنیاد فراہم ہوئی۔ اکبر کے بعد ان کے بیٹے نورالدین جہانگیر اور پھر شاہجہان نے حکمرانی کی، جس دوران سلطنت نے فن تعمیر میں عروج حاصل کیا۔ تاج محل اور لال قلعہ جیسے شاہکار اس دور کی علامت ہیں۔
اندلس میں اسلام کا عروج
اندلس میں اسلام کا عروج ایک عظیم تاریخی واقعہ ہے جو آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے ہسپانیہ میں داخلے سے شروع ہوا۔ سن 711 عیسوی میں طارق بن زیاد کی قیادت میں مسلمانوں نے ہسپانیہ پر حملہ کیا اور کئی علاقے فتح کرلئے۔
ابتدائی فتوحات
طارق بن زیاد کی فتح کے بعد عبدالرحمان الداخل نے اموی سلطنت کو تدریج سے دوبارہ قائم کیا۔
عبدالرّحمان الداخل نے قرطبہ شہر کو دارالحکومت بنایا اور قوّت کو مضبوط کیا۔
عہد زریں
ثقافتی ترقی: علمی اور ثقافتی ترقی کا یہ دور انتہائی شاندار تھا۔
تعلیمی ادارے: قرطبہ، غرناطہ اور اشبیلیہ میں کئی بڑے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔
عظیم شخصیات
اندلس میں کئی عالی دماغ پیدا ہوئے جنہوں نے مختلف علوم میں اپنی مہارت دکھائی:
ابن رشد: فلسفہ اور طب کے ماہر۔
زہراوی: علم طبابت میں نمایاں خدمات۔
علمی کارنامے
اندلس میں مسلمانوں نے نہ صرف عربی و اسلامی علوم کو فروغ دیا بلکہ یونانی و رومی علمی ورثے کا تحفظ بھی کیا:
یونانی علوم کی عربی میں ترجمہ
طب، فلکیات، ریاضی اور فلسفے میں اہم کام
معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے
اسلامی قوانین اور اصولوں پر مبنی عدلیہ اور انتظامی ڈھانچہ نافذ ہوا:
مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ہم آہنگی
تنظیمی تبدیلیاں اور نیا قانونی نظام
وجہ زوال
اندلس کے زوال کی کچھ وجوہات تھیں:
سیاسی تقسیم: اندرونی خانہ جنگیاں اور خود مختار حکومتیں۔
بیرونی حملے: عیسائی سلطنتوں کی بڑھتی ہوئی طاقت۔
اس طرح، اندلس میں مسلمان تقریباً آٹھ صدیوں تک غالب رہے، اور ان کی علمی، ثقافتی اور سماجی کارکردگی کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔
سلطنت دہلی اور اس کی توسیع
سلطنت دہلی کی بنیاد 1206ء میں قطب الدین ایبک نے رکھی، جو محمد غوری کے ایک غلام اور امیر لشکر تھے۔ اس سلطنت کا آغاز باقاعدہ طور پر جب ہوا جب قطب الدین ایبک نے خود کو بادشاہ مقرر کیا۔
عظیم شخصیات
سلطنت دہلی کی تاریخ میں چند اہم شخصیات درج ذیل ہیں:
قطب الدین ایبک: دہلی سلطنت کے بانی
ایلتمش: جس نے سلطنت کی بنیادوں کو مضبوط کیا
راضیة سلطانہ: پہلی اور واحد مسلم خاتون بادشاہہ
غیاث الدین بلبن: جس نے سلطنت کی مرکزیت کو تقویت دی
معاشرتی اور ثقافتی اصلاحات
سلطنت دہلی نے:
اسلامی تعلیمات کو فروغ دیا۔
Urdu زبان کو ترقی دی۔
عظیم الشان مساجد اور تعلیمی ادارے تعمیر کیے۔
فوجی توسیع
دہلی سلطنت نے مختلف ادوار میں کئی اہم علاقوں پر قبضہ کیا:
ایلتمش کا دور: سندھ، پنجاب اور بنگال کی فتح
غیاث الدین بلبن: شمالی ہندوستان کی فتوحات
علاؤ الدین خلجی: جنوبی ہندوستان کی فتوحات
اقتصادی ترقی
اقتصادی میدان میں، دہلی سلطنت نے:
سقوط دہلی
دہلی سلطنت کا زوال تاتاری حملوں اور داخلی بغاوتوں کی بدولت آیا۔ بالآخر، 1526ء میں بابر نے پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر مغل سلطنت کی بنیاد رکھی، یوں دہلی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔
شخصیات اور حکمرانوں کا تعارف
اسلامی تاریخ کے گزشتہ 200 سالوں میں کئی نمایاں شخصیات اور حکمران نمودار ہوئے جنہوں نے اسلامی دنیا کی تشکیل اور ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں سے چند اہم شخصیات اور حکمرانوں کا تعارف درج ذیل ہے:
حضرت عمر بن عبدالعزیز (717-720ء)
حضرت عمر بن عبدالعزیز خلافت بنی امیہ کے ایک مشہور خلیفہ تھے۔ آپ نے خلافت عادلانہ حکمرانی کے لئے مضبوط مثال قائم کی۔ ان کے دور میں عدل و انصاف، اقتصادی اصلاحات، اور اسلامی فقہ کی ترویج و ترقی پر خصوصی توجہ دی گئی۔
ہارون الرشید (786-809ء)
ہارون الرشید عباسی خلافت کے پانچویں خلیفہ تھے۔ ان کا دور اسلامی عہد کا سنہری دور سمجھا جاتا ہے۔ علم و ادب، فنون، اور سائنسی تحقیق میں بے پناہ ترقی ہوئی۔ ہارون الرشید کا بغداد میں قائم کیا گیا بیت الحکمت علمی تحقیق کا ایک اہم مرکز تھا۔
صلاح الدین ایوبی (1137-1193ء)
صلاح الدین ایوبی ایک معروف مسلم فوجی رہنما اور ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ انہوں نے صلیبی جنگوں میں خطے کو بچانے اور بیت المقدس کو دوبارہ اسلامی حکمرانی میں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی حکمت عملی اور عزم نے انہیں عالمی سطح پر عظیم سپاہ سالار کے طور پر تسلیم کیا۔
معز الدین محمد بن سام (1149-1206ء)
معز الدین محمد بن سام، غوری سلطنت کے ایک مہم جو تھے جنہیں محمد غوری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ انہوں نے موجودہ افغانستان، پاکستان اور شمالی بھارت میں غوری سلطنت کی بنیاد رکھی اور اس خطے میں اسلامی حکومت کو مستحکم کیا۔
التتمش (1211-1236ء)
التتمش، دہلی سلطنت کے مشہور غلام خاندان کے تیسرے حکمران تھے۔ ان کے دور میں دہلی کی سلطنت کو مستحکم کیا گیا اور انہوں نے کئی اہم اصلاحات نافذ کیں۔ انہوں نے لاقانونیت کے خاتمے اور عدلیہ کے نظام کی بہتری کے لئے اہم اقدامات اٹھائے۔
اورنگزیب عالمگیر (1658-1707ء)
اورنگزیب عالمگیر، مغل سلطنت کے چھٹے اور آخری عظیم حکمران، کی شخصیت متنازع رہی ہے۔ انہوں نے اسلامی قوانین کے اطلاق اور دینی تعلیم کی ترویج کے لئے بہت زیادہ کوششیں کیں۔ ولیکن ان کی حکمرانی کے اختتام پر مغل سلطنت زوال پزیر ہوجاتی ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ان حکمرانوں اور شخصیات نے اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں اہم کردار ادا کیا اور ان کے کارنامے آج بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔
اسلامی تاریخ کے اہم معاہدات
اسلامی تاریخ میں کئی اہم معاہدات ہوئے جو تاریخی اور مذہبی لحاظ سے قابل ذکر ہیں۔
معاہدۂ حدیبیہ
معاہدۂ حدیبیہ 6 ہجری میں نبی کریم ﷺ اور قریش کے درمیان ہونے والا ایک اہم معاہدہ تھا۔ یہ معاہدہ دس برس کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان امن کی ضمانت دیتا تھا۔ معاہدے کی اہم شقیں مندرجہ ذیل تھیں:
مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
دس سال تک جنگ بندی کی گئی۔
مسلمانوں اور قریش دونوں کو اپنے قبیلوں کے ساتھ معاہدے کرنے کا اختیار دیا گیا۔
میثاقِ مدینہ
میثاقِ مدینہ 1 ہجری میں مدینہ میں مختلف قبائل اور مسلمان مہاجرین کے درمیان امن و اتفاق کے لیے تشکیل دیا گیا۔ یہ اسلامی ریاست کا پہلا آئین تھا۔ اہم نکات درج ذیل ہیں:
تمام قبائل اور اقوام کو آزاد مذہبی رسومات کی اجازت دی گئی۔
جنگ کی صورت میں متحدہ دفاع کی یقین دہانی۔
مدینہ کی حفاظت اور داخلی سکیورٹی کے لیے مشترکہ ذمہ داری۔
جنگِ خندق کا معاہدہ
جنگِ خندق 5 ہجری میں ہونے والی اہم جنگ تھی جس میں کفار مکہ اور مسلمانوں کے درمیان عرب قبائل کی ناچاقی کم کی گئی۔ اس جنگ کے بعد معاہدات کے چند نکات درج ذیل تھے:
مسلمانوں کو مدینہ میں خندق بنانے کی اجازت ملی۔
مخالفین کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا۔
قبائل کے درمیان صلح اور آپس کے تعلقات کو مضبوط بنایا گیا۔
معاہدۂ متینہ
معاہدۂ متینہ نبی کریم ﷺ کے دورِ حیات کا اہم معاہدہ تھا جو یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کے درمیان کیا گیا۔ یہ معاہدہ بنیادی طور پر مشترکہ دفاع اور امن قائم کرنے کے لئے تھا۔ اہم نکات نمایاں ہیں:
مسلمان اور یہودی ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت کا احترام کریں گے۔
جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی۔
فیصلہ سازی میں سب کو مساوی حصہ ملے گا۔
اسلامی تاریخ کے یہ اہم معاہدات امن و امان، صلح و آشتی اور بین الاقوامی تعلقات میں نہایت اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ معاہدات اسلامی اصولوں، روایات اور اقوام کے درمیان تعاون کی بنیاد پر تھے۔
جدید دور میں اسلامی تاریخ
بیسویں اور اکیسویں صدی میں اسلامی تاریخ میں کئی اہم واقعات اور تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ یہ دور عالمی سیاست، معاشی اور سماجی تغیرات، اور فکری تحریکات کے اثرات سے پُر تھا۔
عالمی سیاست میں اثرات
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ: 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا جس کے بعد مسلم دنیا میں سیاسی خلا کا آغاز ہوا۔
استعماریت کا خاتمہ: دوسری جنگ عظیم کے بعد بیشتر مسلم ممالک نے استعماریت سے آزادی حاصل کی جو کہ اسلامی دنیا کے لئے ایک نئی شروعات تھی۔
معاہدہ سائکس-پیکو: اس معاہدے نے مشرق وسطیٰ کے جغرافیائی حدود میں بڑی تبدیلیاں لائیں، جو آج بھی علاقائی تنازعات کا سبب بنتی ہیں۔
معاشی تغیرات
تیل کی دریافت: بیسویں صدی کے وسط میں عرب ممالک میں تیل کی دریافت نے ان ممالک کی معیشت کو بڑھاوا دیا، عالمی منڈیوں میں اہم کردار ادا کیا گیا۔
عالمی معیشت میں حصہ: مسلم ممالک نے عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا شروع کیا، خاص کر توانائی کے شعبے میں۔
سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں
تعلیمی ترقی: جدید تعلیمی ادارے قائم ہوئے، جو اسلامی دنیا میں تعلیمی معیار کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔
حقوق نسواں: خواتین کے حقوق کے حوالے سے بھی اصلاحات ہوئیں، اور خواتین نے معاشی اور تعلیمی میدان میں نمایاں کردار ادا کرنا شروع کیا۔
فکری تحریکات
اسلامی احیا تحریک: اس تحریک نے منبرت الاسلام کی بنیاد مہیا کی اور جدید دور میں اسلامی شناخت کو مضبوط کیا۔
تجدد پسند اسکولز: مختلف تجدد پسند اسکولز نے اسلامی تعلیمات کو جدید پیرائیوں میں پیش کیا۔
جدید چیلنجز
دہشت گردی: کئی اسلامی ممالک کو دہشت گردی اور انتہاپسندی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
مغربی اثرات: مغربیت اور عالمی ثقافتی دباؤ نے اسلامی معاشرتی ڈھانچے پر اثرات مرتب کیے۔
یہ سب عوامل جدید دور میں اسلامی تاریخ کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔