بیتے زمانے

 #بیتے_زمانے


"کاش کے وہ جہالت پھر لوٹ آئے "

ہم نے جب اپنے معاشرے میں آنکھ کھولی تو ایک خوبصورت جہالت کا سامنا ہوا ۔ ہمارا گاوں سڑک، بجلی اور ٹیلی فون جیسی سہولتوں سے تو محروم تھا لیکن اطمینان اس قدر تھا جیسے زندگی کی ہر سہولت ہمیں میسر ہو ۔ کائنات کی سب سے خوبصورت چیز جو میسر تھی وہ تھی محبت ۔ کوئی غیر نہیں تھا سب اپنے تھے ۔ نانیال کی طرف والے سب مامے، ماسیاں، نانے نانیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ددیال کی طرف والے سارے چاچے چاچیاں، پھوپھیاں دادے دادیاں ہوا کرتی تھیں ۔۔ 

یہ تو جب ہمیں نیا شعور ملا تو معلوم پڑا کہ وہ تو ہمارے چاچے مامے نہ تھے بلکہ دوسری برادریوں کے لوگ تھے ۔ 

ہمارے بزرگ بڑے جاہل تھے کام ایک کا ہوتا تو سارے ملکر کرتے تھے ۔ جن کے پاس بیل ہوتے وہ خود آکر دوسروں کی زمین کاشت کرنا شروع کر دیتے ۔ گھاس کٹائی کے لیے گھر والوں کو دعوت دینے کی ضرورت پیش نہ آتی بلکہ گھاس کاٹنے والے خود پیغام بھیجتے کہ ہم فلاں دن آ رہے ہیں ۔ پاگل تھے گھاس کٹائی پر ڈھول بجاتے اور اپنی پوری طاقت لگا دیتے جیسے انہیں کوئی انعام ملنے والا ہو ۔ جب کوئی گھر بناتا تو جنگل سے کئی من وزنی لکڑ دشوار راستوں سے اپنے کندھوں پر اٹھا کے لاتے پھر کئی ٹن مٹی چھت پر ڈالتے اور شام کو گھی شکر کے مزے لوٹ کر گھروں کو لوٹ جاتے ۔

جب کسی کی شادی ہو تو دولہے کو تو مہندی لگی ہی ہوتی تھی باقی گھر والے بھی جیسے مہندی لگائے ہوں کیونکہ باقی جاہل خود آکر کام کرنا شروع کر دیتے ۔ اتنے پاگل تھے کہ اگر کسی سے شادی کی دوستی کر لیں تو اسے ایسے نبھاتے جیسے سسی نے کچے گڑھے پر دریا میں چھلانگ لگا کر نبھائی ۔۔ 

مک کوٹائی( مکئی) ایسے ایک ایک دانہ صاف کرتے جیسے کوئی دوشیزہ اپنے بال سنوارے ۔

کتنے پاگل تھے کنک (گندم) گوائی پر تپتی دھوپ میں بیلوں کے ساتھ ایسے چکر کاٹتے جیسے کوئی سزا بھگت رہے ہوں ۔ 

اگر کوئی ایک فوت ہو جاتا یا جاتی تو دھاڑیں مار مار کر سب ایسے روتے کہ پہچان ہی نہ ہو پاتی کہ کس کا کون مرا ۔۔ 

دوسرے کے بچوں کی خوشی ایسے مناتے جیسے انکی اپنی اولاد ہو ۔۔ 

اتنے جاہل تھے کہ جرم اور مقدموں سے بھی واقف نہ تھے ۔ 

لیکن پھر وقت نے کروٹ بدلی اب نئی جنریشن کا دور تھا کچھ پڑھی لکھی باشعور جنریشن کا دور جس نے یہ سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا کہ ہم بیشک سارے انسان ہوں بیشک سب مسلمان بھی ہوں لیکن ہم میں کچھ فرق ہے جو باقی رہنا ضروری ہے ۔ 

وہ فرق برادری کا فرق ہے قبیلے کا فرق ہے رنگ نسل کا فرق ہے ۔ 

اب انسان کی پہچان انسان نہ تھی برداری تھی قبیلہ تھا پھر قبیلوں میں بھی ٹبر تھا ۔ 

اب ہر ایک ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میرا مرتبہ بلند ہے اور میری حثیت امتیازی ہے ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ دوسرے کو کم تر کہے اور سمجھے ۔ اب ہر کوئی دست و گریباں تھا اور جو کوئی اس دوڑ میں شامل نہ ہوا تو وہ زمانے کا بزدل اور گھٹیا انسان ٹھہرا ۔ 

اب گھر تو کچھ پکے اور اور بڑے تھے لیکن پھر بھی تنگ ہونا شروع ہو گے ۔ وہ زمینیں جو ایک دوسرے کو قریب کرتی تھیں جن کا پیٹ چیر کر غلہ اگتا تھا جس کی خوشبو سے لطف لیا جاتا تھا اب نفرت کی بنیاد بن چکی تھیں ۔ 

شعور جو آیا تھا اب ہر ایک کو پٹواری تحصیلدار تک رسائی ہو چلی تھی اور پھر اوپر سے نظام وہ جس کا پیٹ بھرنے کو ایک دوسرے سے لڑنا ضروری تھا ۔ 

اب نفرتیں ہر دہلیز پر پہنچ چکی تھیں ہم اپنی وہ متاع جسے محبت کہتے ہیں وہ گنوا چکے تھے ۔ اب انسانیت اور مسلمانیت کا سبق تو زہر لگنے لگا تھا اب تو خدا بھی ناراض ہو چکا تھا ۔

پھر نفرتیں اپنے انجام کو بڑھیں انسان انسان کے قتل پر آمادہ ہو چلا تھا ۔ برتری کے نشے میں ہم گھروں کا سکون تباہ کر چکے تھے ہم بھول چکے تھے کہ کائنات کی سب سے بڑی برتری تو اخلاقی برتری ہوتی ہے ۔ 

اب اخلاق سے ہمارا تعلق صرف اتنا رہ چکا تھا کہ صرف ہمارے گاوں کے دو بندوں کا نام اخلاق تھا لیکن ہم نے ان کو بھی اخلاق کہنا گوارہ نہ کیا ایک کو خاقی اور دوسرے کو منا بنا دیا ۔۔۔ 

اب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے کی وجہیں ڈھونڈنے میں لگے تھے ۔ پھر قدرت نے بھی معاف نہ کیا اس نے بھی ہمیں موقع دے دیا ۔ 

مار دھاڑ سے جب ہم ایک دوسرے کو فتح کرنے میں ناکام ہوئے تو بات قتل پر آ گئی ۔ اب ایک تسلسل سے یہ عمل جاری ہے ۔ اب تو ہم اخباروں اور ٹی وی کی زینت بھی بن گے ۔ اب شاید ہی کوئی ایسا دن ہو گا جس دن عدالتوں میں ہمارے گاؤں کا کوئی فرد کھڑا نہ ہو ۔ 

ایف آئی آر اتنی ہو چکی کہ اب ڈھونڈنا پڑتا ہیکہ کیا ہمارے گاؤں کا کوئی ایسا فرد بھی ہے جس پر کوئی کیس نہ ہو ۔ 

اب ان جاہل بزرگوں میں سے کم ہی زندہ ہیں جو زندہ ہیں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہیں ان میں سے اگر کوئی مرتا ہے تو دوسرا اس کا منہ دیکھنے کی خواہش کرتا ہے لیکن ہم باشعور لوگ اسے یہ جاہلانہ کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ اس سے ہماری توہین کا خدشہ درپیش ہے ۔۔ 

ان نفرتوں نے صرف انسان ہی نہیں پانی ، سکول اور مسجدیں بھی تقسیم کر دیں۔ اب تو اللہ کے گھر بھی اللہ کے گھر نہیں رہے ۔ 

ہر کوئی اندر سے ٹوٹ چکا ہے لیکن پھر بھی بضد ہے ۔ وہ نفرت کا اعلاج نفرت سے ہی کرنا چاہتا ہے ۔ اب محبت کا پیغام برادری قبیلے سے غداری سمجھا جاتا ہے ۔ اب دعا بھی صرف دعا خیر ہوتی ہے دعا خیر کا ایک عجب مفہوم نکال رکھاہے ۔ ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کر کے اس کیساتھ مکمل بائیکاٹ کا نام دعا خیر رکھ دیا گیا ہے ۔ 

لیکن ۔۔۔۔۔ 

سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ؟

کیا ہی اچھا ہو اگر ہم آج بھی سنبھل جائیں اپنے اندر کی ساری نفرتیں مٹا کر دوسرے کے حق میں دعا کرنے کی کڑوی گولی کھا لیں ۔ پھر ممکن ہے اللہ بھی معاف فرما دے اور ہم اس نفرت کی آگ سے نکل آئیں تاکہ کوئی بچہ یتیم نہ ہو کسی اور کا سہاگ نہ اجڑے کسی اور کی گود خالی نہ ہو ۔ تاکہ ہم زندگی جیسی قیمتی نعمت کو جی سکیں اس کائنات کے حسن سے لطف اندوز ہو سکیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ایسا ماحول پیدا کر سکیں کہ وہ شعور ، عمل و کردار کی ان بلندیوں پر جائیں کہ وہ خوبصورت جہالت پھر لوٹ آئے جس نے انسانوں کو اعلی اخلاق کے درجے پر کھڑا کر رکھا تھا


مٹتا ہوا لاہور

 لاہور جو ایک شہر تھا۔۔۔۔۔


لاہور 

ناشپاتیوں، سنگتروں، مٹھوں، آڑوؤں، اناروں اور امرودوںکے باغات میں گھرا ہوتا تھا۔ 


موتیے اور گلاب کے کھیت عام تھے۔ 


حتیٰ کہ سڑکوں کے اطراف بھی گلاب اُگے ہوتے، 

جنہیں لاہور کے گردا گرد چلنے والی نہر سیراب کرتی۔ 


گلاب کے پھول لاہور سے دہلی تک جاتے۔ 


صحت بخش کھیلوں اور سرگرمیوں کا رواج تھا۔ 


نوجوان رات دس گیارہ بجے تک گتکا سیکھتے۔ 


اسکولوں میں گتکے کا باقاعدہ ایک پیریڈ ہوتا۔ 


تب شیرانوالا کے حاجی کریم بخش لاہور کے مشہور گتکاباز تھے، 

اور گورنمنٹ کنٹریکٹر موچی دروازہ کے میاں فضل دین مشہور بٹیرباز۔ 


تقریبات کو روشن کرنے کے لیے حسّا گیساں والا بھی لاہور کی معروف شخصیت تھے۔ 


خوشی، غمی، جلسوں، جلوسوں، میلوں ٹھیلوں اور شادی بیاہ کی تقریبات حسّا گیساں والے کے گیسوں سے جگمگ کرتیں۔ 


شادی کی رونق سات سات دن جاری رہتی۔ 


لاہور میں بناسپتی گھی رائج ہوا تو بہت کم لوگ اسے استعمال کرتے، وہ بھی چھپ کر۔ 


کوئی شادی پر بناسپتی گھی استعمال کرتا تو برادری روٹھ جاتی۔ 


جب چائے کا عادی بنانے کے لیے لپٹن والوں نے لاہور میں گھر گھر پکی ہوئی چائے مفت بانٹنا شروع کی 

تو ساندہ کی عورتوں نے چائے بانٹنے والے سکھ انسپکٹر کی پٹائی کردی۔ 


تعلیم کی طرف رجحان کا یہ عالم تھا کہ ماسٹر گھر گھر جاکر منتیں کرتے کہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کرائو۔ 


صدی پون صدی قبل کے لاہور کا یہ ماحول 

تین بزرگ لاہوریوں 

موچی دروازہ کے حافظ معراج دین، 

شیرانوالا اور فاروق گنج کے مستری محمد شریف 

اور ساندہ کے کرنل(ر) محمد سلیم ملک نے 

ماہنامہ آتش فشاں کے ایڈیٹر منیر احمد منیر کے ساتھ اپنے ان انٹرویوز میں بیان کیا ہے 


جو کتاب ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ میں شائع ہوئے ہیں۔


 ایک سو سات برس قبل 

24 فروری1911ء کے روز 

سرآغاخاں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے جلسۂ تقسیم انعامات کے لیے لاہور ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 

تو لاہوریے ایک پُرجوش اور پُرہجوم جلوس کی صورت میں انہیں ایمپریس روڈ پر نواب پیلس میں لائے۔ 


ان کی آمد سے پہلے ان پر برسانے کے لیے پھول اکٹھا کیے گئے 

تو لاہور کے کھیت ویران ہوگئے اور پھول دوسرے شہروں سے منگوانا پڑے۔ 


یہی صورت 21 مارچ 1940ء کو پیش آئی 

جب قائداعظمؒ لاہور سیشن میں شرکت کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے 

تو دوسرے شہروں سے بھی پھول منگوائے گئے۔ 


تب لاہور اگرچہ سیاسی، سماجی اور روایتی جلسوں جلوسوں سے زبردست رونق دار تھا، 

پھر بھی اس کا سکون، خاموشی اور ٹھیرائو مثالی تھا۔


 ’’مٹتا ہوا لاہور‘‘ کے ان انٹرویوز کے مطابق شیر چڑیا گھر میں دھاڑتا 

تو اس کی گرج لاہور میں گونجتی۔ 


شہر اس قدر کھلا کھلا تھا 

کہ موچی دروازہ سے مزار داتا صاحبؒ اور مزار شاہ ابوالمعالی ؒ صاف نظر آتے 

اور لوگ موچی دروازہ کے باہر کھڑے ہوکر ہی دعا مانگ لیا کرتے۔


 بعض جگہوں اور تقریبات کے ناموں میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔


 چڑیا گھر کو چڑی گھر کہتے تھے۔ 


کوٹ خواجہ سعید کا نام کوٹ خوجے سعید تھا۔ 


دسویں محرم یا یومِ عاشور کو گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 


عید میلاد النبیؐ بارہ وفات کہلاتی۔ 


حافظ معراج دین کہتے ہیں کہ اس روز جلوس نکالنے کا فیصلہ 

میں نے، نعمت کدہ کے مہر بِسّا اور مولانا محمد بخش مسلم نے کیا تھا۔ 


پہلا جلوس 1933ء میں نکلا۔ 


اس سے پہلے لاہور کی مساجد میں چنوں پر ختم ہوتا۔ 


باہر بچے کھڑے ہوتے جو نمازیوں کے باہر آنے پر آوازیں لگاتے:’’میاں جی چھولے، میاں جی چھولے‘‘۔ 

وہ چنے ان میں بانٹ دیے جاتے۔ 


مستری محمد شریف کہتے ہیں کہ جلوسِ عید میلادالنبیؐ میں لوگ گڈوں پر ہوتے یا پیدل۔ 


پچاس ساٹھ نوجوان گھڑ سوار برجسیں اور سبز پگڑیاں پہنے آگے ہوتے۔ 


ان کے پیچھے گتکا کھیلنے والے۔ 


پھر نعت خواں۔ 


آخر میں بینڈ والے۔ 


مستری صاحب کہتے ہیں کہ لاہور میں مسلمانوں کے صرف تین مذہبی جلوس نکلتے تھے۔ 


عید میلادالنبیؐ، بڑی گیارہویں شریف اور دسویں محرم کے روز، 

جسے گھوڑے والا دن کہتے تھے۔ 


اُس وقت کسی کو پتا نہیں تھا شیعہ سنی کا۔ 

خلقت امڈ کے آتی تھی۔ 


سنی گھوڑا تیار کرتے، سبیلیں لگاتے، کھانے پکاتے، روشنی کا انتظام کرتے، 


شیرانوالا اسکول کے ڈرل ماسٹر اور 

لاہور کی پہلی مگر خاموش فلم ’’ڈاٹرز آف ٹوڈے‘‘ 

عرف آج کی بیٹیاں کے ہیرو 

ماسٹر غلام قادر سنی تھے، 

لیکن گھوڑے کے جلوس کے ساتھ فرسٹ ایڈ کا سامان لے کے چلتے۔ 


تب لاہور میں بھائی چارہ اور محبت بھرے رویّے عام تھے۔ ا


یک کی بیٹی سب کی بیٹی، 

ایک کا داماد سارے محلے کا داماد۔ 

دکھ اور خوشیاں سانجھی۔ 


مستری شریف نے گلوگیر لہجے میں کہا: 

اب وہ وقت نہیں آئیں گے 

جب کالیے دے کھو پر 

سویرے سویرے وارثی دیوانہ گاتا

’’میرے اللہ کریو کرم دا پھیرا‘‘ 

تو لوگوں کے آنسو نکل آتے۔ 


اس کی آواز دور دور تک جاتی۔ 


لال آندھی چلتی تو مشہور ہوجاتا کہ کہیں کوئی قتل ہوا ہے۔ 


مستری صاحب لاہور میں نورجہاں جب وہ بے بی نورجہاں تھی، کے ذکر میں کہتے ہیں 

کہ وہ کالے کپڑے پہن کر 

نگار سنیما کے اسٹیج پر نعت گاتی 

تو فوٹوگرافر محمد بخش اس پر لال، نیلی، پیلی لائٹیں مارتا۔ 


محمد بخش کی شکل جارج پنجم پر تھی۔ 

جب جارج پنجم کی سلور جوبلی منائی گئی تو اسکول کے ہر بچے کو دیسی گھی کے سواسواسیر لڈو دیے گئے۔


لاہور کی ثقافتی اور روایتی صورت اس قدر بدل چکی ہے 

کہ برانڈ رتھ روڈ کیلیاں والی سڑک کہلاتی تھی۔ 


بہ قول محمد دین فوق ’’ یہ کیلے کے درختوں سے ڈھکی رہتی تھی۔ 


رات تو رات دن میں بھی کسی اکیلے دُکیلے آدمی کا یہاں سے گزرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا‘‘۔ 


شیخ عبدالشکور کہتے ہیں: 

’’انارکلی بازار میں نیچے دکانیں تھیں، 

اوپر طوائفوں کے بالا خانے تھے۔ 

بعد میں وہاں سے انہیں نکال دیا گیا۔ 


شاہ محمد غوث کے سامنے جہاں اب وطن بلڈنگ ہے، 

وہاں عمدہ ناشپاتیوں کا باغ تھا‘‘۔ 


اخبار وطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خاں چندے کھولنے میں مشہور تھے۔ 

اخبار وطن میں 1902ء میں انہوں نے حجاز ریلوے کے لیے چندہ کھولا 

کہ لاہور سے مدینہ منورہ تک ٹرین چلائی جائے گی۔ 

ٹرین تو نہ چلی، وطن بلڈنگ بننا شروع ہوگئی۔ 


لاہوریے پوچھتے تو انہیں جواب ملتا: 

پہلے ریلوے اسٹیشن تو بن جائے، پھر ٹرین بھی چل جائے گی۔ 

جو آج تک نہیں چلی۔ 


حافظ معراج دین کہتے ہیں: ’’جو دو روپے چندہ دیتا، رئیس سمجھا جاتا‘‘۔


دہلی دروازے کے باہر 

ہر اتوار کو گھوڑوں اور گدھوں کی منڈی لگتی۔ 

نیلامی ہوتی۔ 

اندھا گدھا کم قیمت پر بکتا۔ 


یہیں لاہور کی ککے زئی برادری کے ایک بڑے خان بہادر ملک نذر محمد کا گھوڑوں کا اصطبل تھا۔ 


خاں بہادر نذرمحمد انسانی حقوق کی معروف علَم بردار عاصمہ جہانگیر کے دادا تھے۔ 


وہ اپنے دور میں لاہور کی ایک خوشحال اور بڑی معزز و معتبر شخصیت تھے۔ 


انہیں انگریز نے منٹگمری (اب ساہی وال) میں گھوڑی پال مربعے دیے تھے۔ 


وصیت کے مطابق انہیں قبرستان شاہ محمد غوثؒ میں دفن کیا گیا۔ 


یہاں پنجاب کے سرسید ڈپٹی برکت علی، خواجہ عبدالعزیز ککڑو، ہندو بیرسٹر دیناتھ سمیت 

بڑی نامور شخصیات بھی دفن ہیں 


یہ تاریخی قبرستان دن دہاڑے اس طرح ختم کردیا گیا ہے 

کہ اس کے اوپر لینٹل ڈال کر مسجد وہاں تک پھیلا دی گئی ہے۔ 


قبرستان تک جانے کا کوئی راستہ نہیں رکھا گیا۔


 ان کئی جگہوں کا ذکر بھی ہے 

جو عدم توجہی سے برباد ہوگئیں یا ہورہی ہیں۔ 


مثلاً شادی لال بلڈنگ، 

برکت علی محمڈن ہال، 

لاہور کا پہلا سنیما پاکستان ٹاکیز، 

علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اورپاکستان کی نسبت سے صنوبر سنیما اور یونیورسٹی گرائونڈ وغیرہ وغیرہ۔ 


تاریخی یونیورسٹی گرائونڈ جہاں قائداعظمؒ نے لاہور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسۂ عام سے خطاب کیا تھا، 

اسپورٹس کے حوالے سے بھی ایک یادگار جگہ ہے، 

جو اورنج لائن میٹرو پراجیکٹ کی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ 


اسی طرح موج دریا روڈ پر جہاں انکم ٹیکس ہائوس ہے 

وہاں مہاراجا کپورتھلہ کا پُرشکوہ محل تھا۔ 


30جنوری1884ء کو سرسید احمد خاںؒ لاہور آئے 

تو اسی مکان میں ٹھیرے۔ 


لاہوریوں کو ’’زندہ دلانِ لاہور‘‘ کا لازوال خطاب سرسیدؒ ہی نے اپنے دورۂ لاہور کے دوران میں دیا تھا۔


1926ء میں علامہ اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے لیے کھڑے ہوئے 

تو لاہور ’’پتلون پوش ولی کو ووٹ دو‘‘ کے نعروں سے گونجتا رہا۔ 


جیت کے بعد لاہوریوں نے علامہ کے اعزاز میں موچی دروازہ کی تاریخی جلسہ گاہ میں جلسۂ عام کیا۔  


اگلی صف میں رستم زماں گاماں پہلوان کو بیٹھا دیکھ کر علامہ نے اسے بھی تقریر کی دعوت دے دی۔ 


موچی دروازے کی اجڑی اور مٹتی ہوئی اس جلسہ گاہ کے ذکر میں 

جنرل ایوب کے مقابلے میں مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی امیدوار تھیں۔ 


موچی دروازے کی اسی جلسہ گاہ میں مادرملتؒ کے مقابلے میں اتنا بڑاجلسہ آج تک نہیں ہوا۔ 


جلسہ گاہ میں ان کی آمد پر لاہوریوں نے پُرزور اور پُرجوش آتش بازی بھی کی۔ 


کتاب کے مؤلف منیر احمد منیر نے موچی دروازے کے ایک ایسے جلسۂ عام کا بھی چشم دید احوال بیان کیاہے 

جس میں ایک بھی سامع نہ تھا۔


لاہور کے تاریخی دنگلوں، پہلوانوں، غنڈوں، سیاسی و سماجی تحریکوں اور ان کے نمایاں کرداروں کے علاوہ 

لاہور کی کئی قدیمی ہندو شخصیات کے ذکر میں 

بیلی رام تیل والا کی غنڈہ گردی 

اور ساہوکاربلاقی شاہ کی سودخوری کے واقعات بھی دیے گئے ہیں


کہ ممتاز دولتانہ کے والد احمد یار خاں دولتانہ اور مالیرکوٹلہ کے وزیراعظم نواب ذوالفقار علی خاں تک 

اس کے مقروض تھے۔


 اور اس ہندو سرمایہ دار لچھے شاہ کے اعلانِ پاکستان کے بعد 

دیے گئے اس چیلنج کی تفصیل بھی درج ہے 


کہ ’’جو شاہ عالمی کو آگ لگائے گا میں اسے بیٹی کا ڈولا دوں گا‘‘۔


 حافظ معراج دین کہتے ہیں:


مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے جواب میں موچی دروازے والوں نے شاہ عالمی جلادیا 

لیکن ہم نے اس کی بیٹیوں کی پوری حفاظت کی۔ 


مستری محمدشریف کہتے ہیں: 


ہندو عورتیں ساڑی پہنتی تھیں۔ مسلمان عورت کی شناخت برقع تھی۔ 


لاہور حیاداری سے اس قدر اٹااٹ تھا کہ رات تک نوجوان لڑکے لڑکیاں لاہور کے سرکلر گارڈن میں کھیلتے۔ 


کوئی لڑکا لڑکی کی طرف بری نظر سے نہ دیکھتا۔ 


پھل دار درختوں اور پھول دار پودوں سے بھرے ہوئے اس تاریخی باغ میں 

رات دس گیارہ بجے تک میں نوجوانوں کو گتکا سکھاتا۔ 


ہریالی اس قدر تھی کہ شیرانوالہ سے ہم داتا صاحبؒ حاضری کے لیے جاتے 

تو سڑک کو شیشم کے درختوں نے ڈھانپ رکھا ہوتا۔ ہم راستہ چھائوں ہی میں طے کرتے۔ 


اب وہ دور نہیں آئے گا۔ 

جب کھوٹ ملاوٹ کا کسی کو پتا ہی نہ تھا۔ جان و مال محفوظ تھی۔ 

زیورات سے لدی عورت کلکتے سے پشاور تک اکیلی جاتی، 

کوئی اس کی طرف نظر بھر کے دیکھتا نہ تھا۔


"مٹتا ہوا لاہور" سے کچھ یادیں

ٹیپو شلطان

 "شیرِ میسور  ٹیپو سُلطان"


شیرِ میسور سلطان ٹیپو نے ۴؍ مئی ۱۷۹۹ء کو فجر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر قلعے کی فصیل کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں سلطان نے دیوار کے شگاف کو دیکھا اور اس کو درست کرنے کے احکام صادر کیے۔ فصیل پر بیٹھنے کے لیے ایک سائبان لگانے کا حکم دیا اور محل میں واپس آ گئے۔ تقریباً دس بجے چند نجومی حاضر ہوئے اور سلطان سے کہا کہ :’’ آج کا دن آپ کے لیے بہت منحوس ہے اور خاص طور پر دوپہر کا وقت، بہتر یہ ہے کہ آپ سارا وقت اپنے سرداروں اور وزیروں کے ساتھ بسر کریں اور نحوست کو ٹالنے کےلیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات ادا کریں۔‘‘


                                                            نجومیوں کی یہ پیشین گوئیاں سُن کر سلطان نے صدقہ و خیرات کے سازوسامان تیار کرنے کا حکم دیا اور غسل کرنے کے بعد سونے، چاندی اور جواہرات درویشوں اور برہمنوں میں تقسیم کیے۔ جب کہ غریبوں،  محتاجوں اور مسکینوں میں روپیہ اور کپڑا بانٹا۔ اُس کے بعد سلطان دسترخوان پر کھانا کھانے کے لیے بیٹھے۔ ابھی ایک نوالہ ہی کھانا کھایا تھا کہ شہر کی طرف سے چیخ و پکار سنائی دی۔ سلطان کا یہ آخری نوالہ تھا۔ انھوں نے کھانا چھوڑ دیا اور پوچھا : ’’یہ شور کیسا ہے؟


      ‘‘   چند وفاداروں نے آ کر خبر دی کہ:’’ سید غفّار توپ کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔دشمن کسی مزاحمت کے بغیر قلعے کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں’’


سید غفّار سلطان ٹیپو کے بہت ہی زیادہ قریبی اور وفادار ساتھی تھے۔ سری رنگا پٹّم میں صرف یہی ایک ایسے وفادار سردار بچے تھے جو سلطان کو دل و جان سے چاہتے تھے۔ سلطان نے جیسے ہی اُن کی شہادت کی خبر سُنی۔ دسترخوان سے فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور ہاتھ دھوکر کہا :’’ ہمارے وفادار ساتھی چلے گئے تو پھر ہم بھی چلیں گے۔‘‘ باہر نکل کر سلطان اپنی گھوڑی پر سوار ہوئے اور چند وفادار سپاہیوں کے ساتھ قلعے کے دریچے کی طرف بڑھے۔ وہ دریچے سے نکل کر دشمن کی طرف بے خوفی سے بڑھتے چلے گئے اور جارحانہ انداز میں حملہ کیا۔ اسی دوران میر صادق غدّارِ وطن دریچے کے قریب آیا اور اُس نے دریچہ بند کر دیا تاکہ سلطان ٹیپو دوبارہ قلعے میں داخل نہ ہوسکیں۔


 


جوں ہی نمک حرام میر صادق نے دریچہ بند کیا، بالکل اُسی وقت سلطان ٹیپو کے ایک وفادار سپاہی نے اُسے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اُس نے میر صادق کو خوب ڈانٹا پھٹکارا اور کہا کہ:’’ غدّارِ وطن ! تو سلطان کو دشمنوں کے حوالے کر کے اپنی جان بچانا چاہتا ہے ؟‘‘ اتنا کہہ کر اُس جاں نثار نے تلوار کا ایسا زوردار وار کیا کہ غدّار میر صادق بری طرح چکرا کر گھوڑے سے گر پڑا۔ پھر اُس سپاہی نے میر صادق کو تلوار سے مار مار کر قیمہ بنا دیا اور لاش کو اٹھا کر گندگی کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ اس طرح وطن فروش، نمک حرام، ننگِ دین، ننگِ وطن میر صادق کا انجام بڑا بھیانک ہوا۔


                                                            انگریز فوج قلعے تک پہنچنے کی جان توڑ کوشش کر رہی تھی۔ لیکن مورچوں پر سلطان ٹیپو کی وفادار اور جاں نثار فوج اُن کا راستا روکے ہوئے تھی جس کی وجہ سے انگریزوں کو قلعے پر قبضہ کرنے میں دشواریاں پیش آ رہی تھیں۔ شاطر انگریزوں نے پھر سازش شروع کر دی اور محل میں موجود غدّار وزیرِ خزانہ پورنیا کی مدد حاصل کی۔


چناں چہ جب جنگ پورے عروج پر تھی اور سلطان ٹیپو کے وفادار سپاہی انگریزوں کو کاٹ کاٹ کر پھینک رہے تھے۔عین اُسی وقت غدّار پورنیا نے لشکر میں یہ اعلان کروا دیا کہ:’’ سپاہی آ کر اپنی اپنی تنخواہ لے جائیں۔‘‘ اصل میں پورنیا مورچوں سے فوج کوکسی طرح سے ہٹانا چاہتا تھا تاکہ قلعے پر انگریز فوج آسانی سے چڑھا ئی کر دے۔ وزیرِ خزانہ کا اعلان سُن کر سپاہی اپنی تنخواہ لینے کے لیے جیسے ہی مورچوں سے ہٹے اِن غدّاروں نے انگریزوں کو سفید رومال ہِلا ہلا کر بتا دیا کہ راستا بالکل صاف ہے۔


                                                            انگریز جنرل بیئرڈ نے اشارہ پاتے ہی فوج کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا۔ایک دوسرا غدّار میر قاسم علی انگریزی فوج کی رہنمائی کر رہا تھا۔ سب سے پہلے یہی نمک حرام دشمنِ وطن میر قاسم علی فصیل پر چڑھا۔ اُس کے بعد انگریزی فوج نے اوپر چڑھ کر اپنا پرچم لہرا دیا۔ اس طرح قلعے کی فصیل پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا


سلطان ٹیپو نے جب غدّاروں کی یہ غدّاری دیکھی تو وہ آپے سے باہر ہو گئے۔ لیکن اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ انھوں نے اپنے جاں نثاروں کے ساتھ قلعے میں واپس جا کر انگریزوں کی پیش قدمی روکنے کا ارادہ کیا۔ لیکن میر صادق نے تو دریچہ بند کر دیا تھا۔ سلطان نے دربانوں کو آواز دی کہ وہ دروازہ کھولیں۔ لیکن انھوں نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ جب کہ دشمن فوج کا ایک دستہ فائرنگ کرتے ہوئے تیزی سے اِس عظیم مجاہدِ آزادی سلطان ٹیپو کی طرف بڑھ رہا تھا۔


                                                            سلطان ٹیپو بہادر باپ کے بہادر بیٹے تھے۔ خود کو موت کے منہ میں دیکھ کر بھی انھوں نے ہمّت نہ ہاری۔ وہ دنیا میں اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تھے۔ اسی لیے تلواروں کی چھاؤں اور گولیوں کی بوچھار میں بھی وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ سلطان کے ایک جاں نثار خادم راجا خاں نے ایسے عالم میں کہا کہ: ’’ حضور! آپ اپنے آپ کو انگریز افسر ظاہر کر دیں، حملہ آور آپ کے مرتبے کا خیال رکھیں گے اور اس طرح آپ کی جان بچ جائے گی۔ ‘‘سلطان نے جب یہ مشورہ سنا تو اُن کی رگِ غیرت پھڑک اُٹھی اور گرج دار آواز میں کہا کہ : نہیں ہرگز نہیں، مَیں دشمن سے رحم کی بھیک کبھی نہیں مانگوں گا، شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔


                                                            سلطان ٹیپو کو اِس بات کا پکّا یقین ہو چلا تھا کہ اب اُن کی زندگی کا چراغ گل ہونے والا ہے۔انھوں نے موت سے ڈرنے کی بجائے ایک بہادر کی طرح اُس کو گلے لگانے کا تہیہ کر لیا۔ انھوں نے تیزی سے دشمن کی طرف بڑھ کر حملہ بول دیا اور آن کی آن میں کئی دشمنوں کو ختم کر دیا۔ اتنے میں ایک گولی سلطان کی گھوڑی کو لگی اور وہ وہیں گر پڑی۔ سلطان کا جذبۂ جہاد اب بھی سرد نہ ہوا۔ بل کہ وہ اب پیدل ہی دشمن سے جنگ کرنے لگے۔ اُن کے وفادار اور بہادر سپاہیوں نے اُنھیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور اپنے سلطان کو بچانے کے لیے ایک ایک کر کے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ انگریز سپاہی چاروں طرف سے اکٹھے ہو کر اسی جگہ اپنی زور آزمائی کرنے لگے۔ اب دو بہ دو لڑائی ہو رہی تھی۔ دونوں طرف کے سپاہی اپنی بہادری کے جوہر دکھا رہے تھے۔ چاروں طرف سے گولیوں کی آواز اور تلواروں کی جھنکار سنائی دی رہی تھی کہ اتنے میں ایک گولی سلطانٹیپو کے سینے میں دل کے پاس لگی اور سلطان زمین پر گر پڑے۔


            سلطان کے جاں نثار ایک ایک کر کے شہید ہو چکے تھے۔ اب وہ بالکل تنہا رہ گئے تھے۔انھیں اِس وقت اٹھانے والا کوئی بھی نہ تھا۔ اچانک ایک انگریز سپاہی سلطان کے قریب آیا اور اُس نے سلطان کی کمر سے اُن کی خوب صورت اور قیمتی پیٹی اُتارنے کی کوشش کی مگر سلطان ابھی زندہ تھے۔ انھوں نے لیٹے لیٹے ہی تلوار کا ایک ایسا بھرپور وار کیا کہ انگریز سپاہی کا گھٹنا کٹ گیا۔ اُس سپاہی نے سلطان کر سر کا نشانہ لگا کر گولی چلائی گولی لگتے ہی فتح علی سلطان ٹیپو شہید ہو گئے۔


                                                            سلطان کی شہادت کے وقت ۲۹ ذوالقعدہ ۱۲۱۳ھ مطابق۴؍ مئی ۱۷۹۹ء بروز سنیچر کا سورج غروب ہو رہا تھا عین اُسی وقت سلطنتِ خد ادا دمیسورکی عزت و عظمت ہی نہیں بلکہ  پوری مملکتِ ہندوستان کی عزت و عظمت کا آفتاب بھی ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا۔ سلطان کی شہادت سے ہندوستان کی آزادی کا چراغ بھی بجھ گیا۔


ان للّٰہ و انا الیہ راجعون۔۔۔


(جاری ہے)


ڈاکٹر مشاہد رضوی کی کتاب’’سلطان ٹیپو‘‘ سے ماخوذ



آخری مغل بادشاہ

 "آخری مُغل بادشاہ"


یہ ۱۲۷۳ ہجری رمضان المبارک کی۱۶ تاریخ ہے، شہرِ دہلی میں عیسوی کے اعتبار سے ۱۱ مئی ۱۸۵۷ کا یہ دن اپنے اعتبار سے گرم اور خُشک ہے۔ موسم گرما اپنے عروج کی طرف گامزن ہے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد صبح سات بجے  کے قریب مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر  لال قلعے  میں ندی کے کنارے تسبیح خانے میں اشراق کی نماز پڑھ رہے ہیں۔ اسی دوران ان کو اپنے بائیں جانب دریا ئے جمنا کے پیچھے، کشتیوں کے لئے بنائے گئےپُل کے پچھلے کنارے پرٹُول ہاؤس سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ منظر دیکھ کر بہادر شاہ ظفر میر فتح علی کو زور دار آواز سے مخاطب کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی لال قلعے سے ایک ہرکارہ ٹول ہاؤس کی جانب نہایت برق رفتاری سے روانہ ہوتا ہے تا کہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر یہ دھواں کس وجہ سے اُٹھ رہا ہے؟ ہرکارہ واپس آ کر بادشاہ کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ ابھی راستے میں ہی تھا کہ وہ کیا دیکھتا ہے کہ انگریزی فوج کی وردی میں ملبوس کچھ ہندوستانی سوار برہنہ تلواروں کے ساتھ دریائے جمنا کا پل عبور کر چکے ہیں اور انھوں نے دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ٹول ہاؤس کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی ہے۔یہ سن کر بادشاہ ظفر شہر اور قلعے کے تمام دروازے بند کرنے کا فرمان جاری کرتے ہیں ۔


شام کے وقت ان باغیوں کا سربراہ قلعے میں بادشاہ ظفر کے پاس حاضر ہوتا ہے اور انگریز وں کے خلاف بغاوت کو ایک مکمل جنگ کا روپ دینے کے لئے بادشہ ظفر کی سرپرستی کے لئے درخواست کرتا ہے لیکن بادشاہ نہایت پریشانی کے عالم میں فوری کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے اور وزیر اعظیم احسان اللہ خاں باغیوں کے سربراہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کون سا خزانہ ہے کہ آپ کو تنخواہ پر انگریزوں کے خلاف مدد فراہم کریں۔ لیکن بالاخر بادر شاہ ظفر  نے ان باغیوں کی سرپرستی قبول کر لی۔


اُس دَور کے دہلی کالج کے ایک  متحرک طالبِ علم موہن لال کشمیر ی نے ان تمام تاریخی وا قعات کے متعلق  یہ بات بڑے وثوق سے لکھی:


’’ میں نے کبھی دہلی کے کسی مقامی یا بیرونی مستند ذرائع سے یہ نہیں سنا تھا کہ بادشاہ ظفر بغاوت کرنے والوں سے رابطے میں تھا اس سے قبل کہ ان کے ملک میں باغی کاروائی شروع کردیں۔ لیکن اس کے بعد جب شرپسندمحل اور شہر پر مکمل قابض ہوگئے۔ انہوں نے شہریوں پر اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے عسکری جلوس میں اپنی عظمت کو سامنے لانے کی بات کی۔ بادشاہ نے  اب پہلی بار خود کو  ایک بہادر اور ایک باقاعدہ عسکری گروہ کے ساتھ دیکھا ، جو اس کے مقاصد کی حمایت کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے جلوس کے معاونین کے لئے آنے والی آبادی غمزدہ چہروں سے اس کی طرف نہیں دیکھ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے معاملات کے سازگار موڑ کو رعایا کی ایک بڑی تعداد نے منظور کرلیا ہے۔ اس نے [برطانوی سلطنت پر] آفات کی خبریں سنی۔یہاں بادشاہ ظفر کو غلط اطلاعات موصول ہوئی کہ بر طانوی افواج دوسرے محاذوں پر سرگرمِ جنگ ہیں اور برطانیہ میں جاری سیاسی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہندوستان کی اِس تازہ بغاوت کا قلع قمع کرنے کے لئے مزید کمک بھیجیں۔ ممبئی اور دکن میں بھی بغاوت ہوئی تھی۔ ان تمام چیزوں  کو دیکھتے ہوئےبہادر شاہ  ظفر نے سمجھا کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں  شایدعظیم تمیوری سلطنت کی بحالی کے لئےہی پیدا ہوا ہے۔


اگلے دن ۱۲مئی کی صبح دلی انگریزوں سے پوری طرح خالی ہو چکی تھی لیکن چند انگریز خواتین نے قلعے کے باورچی خانے کے پاس کچھ کمروں میں پناہ لے رکھی تھی۔ باغیوں نے بادشاہ کی مخالفت کے باوجود ان سب کو قتل کر دیا۔


اس سب کا آغاز۱۰  مئی ۱۸۵۷ کو میرٹھ  چھاؤنی میں اس وقت ہوا جب بنگال لانسر کے سپاہیوں نے بغاوت کر کے دلی کی جانب کوچ کیا تھا۔ ۱۸۵۷کے واقعات پر انتہائی اہم اورمعروف تاریخ دان رعنا صفوی لکھتی  ہیں:


 


ایسی بندوقیں ایسٹ کمپنی کے فوجیوں کے لئے آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو دانتوں سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کے اندر گائے کی اور خنزیر کی چربی ہے لہٰذا جو مسلمان تھے وہ بھی ان کو چھونے سے مانع تھے اور ہندو بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے۔


اس کے علاوہ مزید کئی اسباب تھے کہ فوجیوں کو سمندر پار لڑائی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ تو اس بات پر ہندوؤں میں کھلبلی مچ گئی کیونکہ برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پانی یعنی سمندر پار کر لیا تو ان کی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ہندو فوجیوں کی ترقی بھی صرف ایک حد تک ہوتی تھی۔ ہندوستانی سپاہی اپنے  صوبے دار سے آگے نہیں ترقی پا سکتے تھے۔ اس طرح کی ان کی بہت ساری شکایات تھیں جو میرٹھ سے اُٹھنے والی آگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں اور جس نے آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔


کچھ لوگوں نے اسے غدر کہا تو کچھ نے جنگ آزادی کا نام دیا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی باغی تتر بتر ہونے لگے اور دلی سے جان بچا کر جانے والوں انگریزوں نے واپسی کی۔ انبالہ سے آنے والے فوجیوں نے نہایت زوردار حملے کئے اور پھر ۱۰ جون ۱۸۵۷ کی صبح انگریزوں کی توپوں کا رُخ لال قلعہ اور دلی شہر کے جانب کردیا گیا۔ گولہ باری شروع ہوئی. لہذا دہلی کے لوگ اپنی چھتوں پر جا بیٹھے ، جبکہ ‘بادشاہ اور شاہی خاندان محل کیے سب سے بلند جگہ پر اپنی نشستیں قلعے کی دیواروں میں موجود سوراخوں سے شہر پر گولہ باری کا نظارہ کرنے لگے۔ اُس وقت جون کی گرمی اپنے عروج پر تھی اور ہر رات توپوں کی گولہ باری سے ہونے والی روشنی میں  لوگ  اپنے سائے دیکھتے تھے۔ اب کیا تھا، بہادر شاہ ظفر کو نظر آ چکا تھا کہ اب دلی اور ان کی نسل در نسل چلنے والی مغلیہ سلطنت اپنے انجام کی جانب گامزن ہے ۔جنرل نکلسن کی قیادت میں انگریز افواج نے چار ماہ تک دلی کا محاصرہ کیا اور بلآخر ۱۸ ستمبر ۱۸۵۷  کو درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ سے حاضری دے کر لوٹتے وقت بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا گیا اور یوں ۱۵۲۶ سے شروع ہونے والی سلطنتِ مغلیہ کی داستان اپنے انجام کو پہنچی۔


وہ ہندوستان کا آخری مغل بادشاہ ثابت ہوئے۔بادشاہ ظفر اپنے والد اکبر شاہ ثانی  کے بعد ۱۸۳۸ میں ۶۰ سال کی عمر میں تخت نشیں ہوئے تھے۔وہ ایک  شاعر اور خطاط ہونے کے ساتھ ساتھ،ایک نفیس شخصیت کے مالک تھے۔تاریخی شواہد سے یہ بات پوری طرح ثابت تھے ہے بادشاہ ظفر کا دربار ہر لحاظ سے ایک غیر معمولی نفیس ثقافتی دربار تھا جس میں فنونِ لطیفہ کے ماہرین مسلم و غیر مسلم موجود تھے۔ انھیں شاعری سے لگاؤ تھا اور خود بھی ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ اُستاد ابراہیم ذوقؔ سے شرفِ تلمذ رکھنے کی وجہ سے اُستاد ذؔوق ملک الشعرا کے درجہ پر تا حیات قائم رہے۔ ان کی وفات کے بعد بہادر شاہ ظفر نے مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کو ملک الشعرا اور اپنا استاد منتخب کیا۔ بہادر شاہ ظفر کی تمام شخصی خوبیوں کے باوجود بھی یہ سوال آج بھی ذہنوں میں اُبھرتا ہے کہ آخر ان کے دور میں ہی سلطنت مغلیہ کا خاتمہ کیوں ہوا؟


اس کے زوال کے  مخلتف اسباب ہیں اور تاریخ دانوں نے تحقیق کے ساتھ مختلف اسباب پر زور دیا ہے جس میں سے غیر مسلم محققین اور مورخوں نے اس بات پر زو ر دیا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر نے اسلامی شرعی نظام کے نفاذ کے لئے جس طرح کے سخت اقدامت کئے اور غیر مسلموں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا وہ آنے والے ادوار میں مغلوں کے زوال کا سبب بنا۔لیکن اس کے بر عکس دیگر اسباب بھی پورے دلائل کے ساتھ موجود ہیں۔لیکن بہادر اہ ظفر کو ایک ایسی کشتی ملی تھی جس کے تقریبا ہر کونے میں سوراخ تھا اور اس کے لئے ان سوراخوں کو بند کرنا ممکن نہ ہوا اور پھر میرٹھ سے اُٹھنے والی بغاوت کی حمایت کا فیصلہ مغلیہ سلطنت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ مغلیہ خاندان کے اِس آخری فرمانروا پر مقدمہ چلا کے اُسے برما کے شہر رنگون میں جلا وطنی کی زندگی گُزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔۷ نومبر ۱۸۶۲کو ابوالمظفر سراج الدین محمد بہادر شاه غازی المعروف ظفر نے اپنے وطن سے دُور رنگون کی ایک چار دیواری مین آخری سانسیں لیں اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔ وطن سے دُوری کا غم اُس آخری مغل بادشاہ کے اِس معروف شعر میں ابھی تک محسوس کیا جاتا ہے:


کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں




گمنامہیرو

 گمنام ہیرو


ایک ایسا عظیم شخص جس نے 1994ء میں کنگ فیصل ایوارڈ کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرایا کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے لکھا ہے لہذا مجھ پر میرے دین کو خراب نہ کریں۔


ایک ایسا عظیم شخص جس نے فرانس کی نیشنیلٹی کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دی کہ مجھے اپنی مٹی اور اپنے وطن سے محبت ہے.


ایک ایسا عظیم شخص جس کے ہاتھ پر 40000 غیر مسلموں نے کلمہ طیبہ پڑھا۔


ایک ایسا عظیم شخص جو 22 زبانوں کا ماہر تھا اور 84 سال کی عمر میں آخری زبان تھائی سیکھ لی تھی.


ایک ایسا عظیم شخص جس نے مختلف زبانوں میں 450 کتابیں اور 937 علمی مقالے لکھے۔


ایک ایسا عظیم شخص جو اس قدر علمی مقام رکھنے کے باوجود اپنے برتن اور کپڑے خود دھوتے تھے۔


ایک ایسا عظیم شخص جسے 1985 میں پاکستان نے اعلی ترین شہری اعزاز ہلال امتیاز سے نواز تو اعزاز کے ساتھ ملنے والی رقم جو ایک کروڑ روپے بنتی تھی اس رقم کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے شعبہ تحقیقات اسلامی کو یہ کہتے ہوئے دیا کہ اگر اس فانی دنیا میں یہ اعزاز وصول کیا تو پھر باقی رہنے والی زندگی کے لئے کیا بچے گا۔


ایک ایسا عظیم شخص جس نے حدیث کی اولین کتاب جو 58 ہجری میں لکھی گئی تھی جسے صحیفہ ہمام بن منبہ کہا جاتا ہے اس عظیم حدیثی و تاریخی دستاویز کو انہوں نے 1300 سال بعد جرمنی میں برلن لائبریری سے دریافت کیا اور تحقیق کے بعد شائع کرایا۔


ایک ایسا عظیم شخص جس نے قرآن مجید کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ و تفسیر لکھا اس شاہکار ترجمے کے بیسوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔


ایک ایسا عظیم شخص جس نے "تعارف اسلام " کے نام سے ایک شاہکار کتاب لکھی جس کتاب کے دنیا کی 22 زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں.


یہ عظیم انسان یہ نابغہ روزگار شخصیت ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی تھی،آپ 1908 میں حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے،

آپ نے 1933ء میں جرمنی کیبون یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد وہیں عربی اور اردو کے استاد مقرر ہوئے۔


آپ 1946ء میں اقوام متحدہ میں ریاست حیدرآباد کے نمائندہ (سفیر) مقرر ہوئے۔


1948 میں سقوط حیدر آباد اور انڈیا سے ریاست کے جبری الحاق پر سخت دلبرداشتہ ہوئے اور جلاوطنی کی زندگی اختیار کی اور جلا وطنی کے دوران "حیدرآباد لیبریشن سوسائٹی" کے نام سے ایک تنظیم بھی بنائی.


1950 میں پاکستان کا پہلا قانونی مسودہ بن رہا تھا تو آپ سے رابطہ کیا گیا آپ پاکستان تشریف لائے.


آپ نے 1952 سے 1978 تک ترکی کی مختلف جامعات میں پڑھایا 


1980 میں جامعہ بہاولپور میں طلبہ کو خطبات دیے جنہیں بعد ازاں خطبات بہاولپوری کے نام سے شائع کیا گیا 


یہ عظیم علمی اور فکری شخصیت 17 دسمبر 2002 کو امریکی ریاست فلوریڈا میں انتقال کر گئی۔


ڈاکٹر محمد حمیداللہ کہنے کو ایک فرد تنہا لیکن کام کئی جماعتوں سے زیادہ کر گئے،اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے۔۔۔ آمین ثم آمین


جمع و ترجمہ 

بقلم فردوس جمال !!!

دس روپے کا ڈاکہ

 ‏استاد نے اپنے شاگردوں سے سوال کیا،

اگر تمہارے پاس 86،400 روپے ہوں

اور کوئی ڈاکو ان میں سے 10 روپےچھین کر بھاگ جائے تو تم کیا کرو گے؟

کیا تم اُس کے پیچھے بھاگ کر اپنی

لوٹی ہو ئی 10 روپےکی رقم واپس حاصل کرنے کی کوشش کرو گے؟

یا پھر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپےکو حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہو گے؟


ھم 10 روپے کی حقیر رقم کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے باقی کے پیسوں کو حفاظت سے لیکر اپنے راستے پر چلتے رہیں گے،


استاد نے کہا،

تمہارا بیان اور مشاہدہ درست نہیں،

میں نے دیکھا ہے کہ ذیادہ تر لوگ اُن 10 روپے کو واپس لینے کے چکر میں ڈاکو ‏کا پیچھا کرتے ہیں اور نتیجے کے

طور پر اپنے باقی کے بچے ہوئے 86،390 روپے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔


طلباء نے حیرت سے استاد کو دیکھتے ہوئے کہا،

سر، یہ ناممکن ہے،

ایسا کون کرتا ہے؟


استاد نے کہا


یہ 86،400 اصل میں ہمارے ایک دن کے سیکنڈز ہیں

کسی 10 سیکنڈز کی بات کو لیکر، ‏یا کسی 10 سینکنڈز کی ناراضگی

اور غصے کو بنیاد بنا کر ہم باقی

کا سارا دن سوچنے، 

جلنے اور کُڑھنے میں گزار کر اپنا

باقی کا سارا دن برباد کرتے ہیں

یہ والے 10 سیکنڈز ہمارے باقی 

بچے ہوئے 86،390 سیکنڈز کو بھی 

کھا کر برباد کر دیتے ہیں۔ ‏باتوں کو نظر انداز کرنا سیکھیئے۔

ایسا نہ ہو کہ آپ کا کوئی وقتی اشتعال، ناراضگی آپ سے آپ کے


سارے دن کی طاقت چھین کر لے جائے۔


معاف کریں

بھول جائیں

اور

آگے بڑھیں

بھوج پتھر

 بھوج پتر


بھوج پتر انتہائی بلند برفانی علاقوں میں پایا جانے والا ایک خود رو اور اپنی نوعیت کا ایک عجیب، منفرد اور کار آمد جنگلی درخت ہے۔ اس کو انگریزی میں Birch ، عربی میں "بتولا" اور شنیا میں کاغذ کو "جوش" اور اس کے درخت کو "جونزی" کہتے ہیں۔ یہ درخت وادی نیلم کے بلند علاقوں خصوصاً گریس کے اونچے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ پھولاوئی سے آگے "سروگہ" اور "گوجر گہ" دونوں نالوں میں پایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ ان سے ملحق استور کے سرحدی علاقوں تک چلا جاتا ہے۔ اسی طرح چلاس، گلگت اور غذر کے بالائی علاقوں اور چترال میں بھی پایا جاتا ہے۔


"بھوج پتر" کا مطلب بھوج کا کاغذ ہے۔ یہ در اصل اس درخت کی اس نرم چھال کا نام ہے جو تنے پر چڑھے سخت چھلکے کے اوپر ہوتی ہے۔ اس چھال کو سخت چھلکے تک چرکا لگا کر اتارا جاتا ہے۔ اس بارے میں چودھری محمد امجد لکھتے ہیں:


"پتھر کے دور میں استعمال ہونے والا کاغذ جو بھوج پتر نام کے درخت کی چھال سے نکالا جاتا ہے یہ درخت دس ہزار فٹ سے لے کر سترہ ہزار فٹ کی بلندی پر ملتا ہے۔ اس کو گوجری زبان میں بہرز ، کشمیری میں بھوج پتر اور فارسی میں توز اور ہندکو میں بھرج کہتے ہیں۔ اس درخت کی چھال اتاری جائے تو تہہ در تہہ کاغذ نکلتا ہے جو بہت عمدہ اور ملائم ہوتا ہے ۔ بدھ مت کے دور میں بھی لوگ تحریر کے لئے اسی کاغذ کو استعمال کرتے تھے ۔۔اس کاغذ کی یہ خاصیت ہے کہ پانی میں پڑا رہے تو خراب نہیں ہوتا۔ موجودہ دور میں بھی تعویز لکھنے کے لیے یہ کاغذ استعمال ہوتا ہے۔ اس پر الف کا نشان ہونے کی وجہ سے اسے متبرک سمجھا جاتا ہے".


یہ چھال تہہ بہ تہہ ہوتی ہے اور اس کی ایک ایک پرت کو الگ کرنے کے لئے ہلکی آنچ دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کھردرا ہو تو اسے نرم کرنے کے لئے بھی یہی طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں جب کاغذ عام نہیں تھا تو خط لکھنے کے لئے یہی چھال استعمال ہوتی تھی۔


اس کے علاوہ بھی اس چھال کے ہمارے ہاں کئی استعمال ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ گرمیوں میں چراگاہوں میں جب دودھ بلو کر مکھن نکالا جاتا ہے تو اسے دھو کر بھوج پتر میں رکھا جاتا ہے جہاں اس کا پانی نچڑ کر صاف ہو جاتا یے۔ اس کے بعد اسے بھوج پتر میں ہی باندھ کر زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ چونکہ بھوج پتر میں پانی نہیں جاتا اس لئے یہ گھی محفوظ رہنے کے ساتھ اپنا ذائقہ بھی بدلتا ہے جس کو ہم "کڑوا گھی" کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا ک

جنرل ضیاء الحق کا ظلمانہ دور

 جنرل ضیاء الحق کا ظالمانہ دور  😌

وہ دور جب پاکستان میں تمام بھارتی میڈیا پہ پابندی تھی ۔ ٹی وی پہ ایک چینل ہوتا تھا اور نیوز کاسٹر سرپہ دوپٹہ رکھ کہ آتی تھیں ۔👰

ٹی وی نشریات شام چار بجے سے رات گیارہ بجے تک ہوتی ۔

نشریات کا آغاز اور اختتام تلاوت کلام پاک ، حمد اور نعت سے ہوتا ۔👍

چوری ، زنا کی بہت سخت سزائیں تھیں اور ملک میں مکمل امن و امان تھا ۔✊💪

ایک روپے کا بن کباب ملتا تھا اور پانچ روپے کا تو بس ایسا بہترین برگر ملتا تھا کہ کھاتے رہ جاؤ ۔👌

تندور پر روٹی آٹھ آنے کی ملتی تھی اور دس روپے میں ایک مزدور آرام سے دو وقت کا کھانا کھا لیتا تھا ۔✌

دوکانوں پر سوئی سے لیکر ہاتھی تک کے نرخ نامے لگے ہوتے اور مجال کہ کوئی ایک دھیلا پیسہ بھی زیادہ لے لے ۔✊

تمام سیاسی پارٹیوں پہ پابندی تھی اور عوام کو گمراہ کرنے والے سیاستدان جیل میں تھے ۔👊

سرکاری سکول فیس 10 روپے ماہانہ تھی اور پرائیوٹ سکول فیس 30 روپے ماہانہ۔👏

سکول میں پڑھایا جانے والا نصاب سخت جانچ پڑتال سے گزرتا اور اسلام مخالف اور پاکستان مخالف کوئی چیز بچوں کو نہ پڑھائی جاتی ۔👌💪

کالج میں ایک مہینہ فوجی ٹریننگ ہوتی جس میں حصہ لینے والوں کو بیس اضافی نمبر ملتے ۔👌

پاکستانی برانڈ کمپنیوں کو تحفظ حاصل تھا۔👍

ملک کی اپنی پولکا آئس کریم ، آر سی کولا ، بنایا ٹوتھ پیسٹ ، فوجی کارن فلیکس ۔ ناصر صدیق گلاس ، رہبر واٹر کولر ، پرافیشنٹ موٹر کار ، یعصوب ٹرک ، پاکستان 🇵🇰میں عام نظر آتے ۔👍👌✌💪💪💪

دور دراز گاؤں میں مسجد فجر اور ظہر کے درمیان سکول کے طور پہ استعمال ہوتی ۔👌👍

تعلیم بالغاں کیلئے نئی روشنی سکول شام کو کھلتے ۔👏

انہی کے دور حکومت میں شریعت عدالت بنی جس میں ایک مقدمے میں سود کو حرام اور قابل سزا جرم قرار دیا گیا !✌👍


😓 جب  وہ شہید ہوے  تو کرایہ کے گھر میں  تھا اس کا اپنا گھر نہیں رہ گیا ۔ اور دوسرا    ان کا حساب اکاؤنٹ میں صرف بیس ہزار روپے تھے  اپنی تنخوا کے۔۔    افغان جنگ کو جتنا ڈالر آتا تھا   ان میں ضیا صاحب نے  ایک بھی نہیں کھایا ہے ۔۔ 


پھر 1988 میں جنرل ضیاء الحق ایک پراسرار حادثے میں شہید ہو گئے 😥

 اور بینظیر بھٹو کا دور شروع ہوا ۔

سب سے پہلے بینظیر نے ضیاء الحق کی تمام اسکیمیں بند کیں ، جن میں مسجد سکول اور نئی روشنی سکول شامل تھے ۔😲😰😢 

پھر زنا کی سزا حدود آرڈیننس پاس کرا کہ ختم کر دی ۔👎

اور تعلیم مہنگی ہوتی گئی اور وہ سب کچھ ہوتا گیا کہ اللہ کی پناہ ۔ 🤔🤐

اس کے بعد نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں حکومت نے آرڈیننس پاس کر کے شرعی عدالت کو ختم کر دیا اور سود کے حرام اور قابل سزا جرم کے شرعی عدالت کے فیصلے کو سپریم کورٹ لیجایا گیا جو کہ آج تک اسٹے پر ہے بلکل اسی طرح جس طرح کچھ حکومتیں اور وزارتیں پہلے اسٹے پر چلتی رہیں اور اسی اسٹے کی آڑ میں سود کا کام کھلے عام یعنی اللہ زولجلال اور اور اس کے نبی ؐ سے جنگ کھلے عام 😨😨 

جنرل ضیاء ایک ملٹری ڈکٹیٹر تھا مگر ساری دنیا کا کفر اس سے کانپتا تھا 👍۔ اپنے ملک کےسارے شیاطین اس کے دور حکومت میں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے ۔ 👌💪

ہمیں فخر ہے آپ پہ جنرل ضیاء الحق شہید 

اللہ آپکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے 

آمین 💖🇵🇰💖

ٹینکی خالی کرو

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹینکی خالی کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


لکھنے بیٹھا ہوں اور دماغ میں کوئی خیال نہیں ۔ 

 یہ مرحلہ جان لیوا ھے ۔

لاکھوں الفاظ مچل رہے ہیں مگر پرونے کے لئے خیال نہیں ۔ 

خیال گھڑ کے اس پر لکھنا ناانصافی ہے اور میں یہ ناانصافی کرنا نہیں چاہتا ۔

 اس لئے آج اس بات پر اکتفا کرونگا کہ بابے بڑے سیانے ھوتے ہیں ۔ بڑی گجی (گہری) بات کہتے ہیں ۔ بظاہر بابوں کے منہ سے نکلی بات بہت آسان  لگتی ہے مگر ھوتی مشکل ہے۔

آپ بابا اشفاق احمد صاحب کی اس دعا کو ہی لے لیجئے فرماتے ہیں 

"اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے "

بظاہر یہ دعا ہمیں بہت اچھی اور آسان لگتی ہے مگر غور کریں تو زندگی کا فلسفہ چھپا ہے ان دو جملوں میں ۔ 

دعا کا پہلا حصہ ہر بندے کو اچھا لگتا ہے کہ 

"اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے "

ہم سب آسانیاں لینے کو ہر وقت تیار ہیں  

مگر اس دعا کا اگلہ جملہ نہایت مشکل مرحلہ ہے۔

"اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف بخشے آمین " 

 کیونکہ میں آسانیاں لینے کو تو شیر ھوں مگر آسانیاں دینے کو ہرگز تیار نہیں ۔ اور آسانیاں دوں بھی تو کسے دوں ؟

 اپنے ہم اثروں کو اپنےاحباب کو جو ہر بات میں مجھ سے بحث کرتے ہیں میری ترقی سے جلتے ہیں۔  

مقابلہ کرتے ہیں ۔ میرے لئے دل میں کینہ رکھتے ہیں ۔ مجھے زیر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ نہ ۔ میں ان کو آسانیاں تقسیم نہیں کرنا چاہتا ۔

 اور رشتے داروں کو تو بلکل نہیں ۔ یہ شریکے عمر بھر مجھے نیچا دکھانے کی ترکیبیں سوچتے رہے ۔ میرا مذاق اڑاتے رہے مجھے کچوکے دیتے رہے ان زبردستی کے رشتے داروں کو تو کوئی آسانی نہیں دے سکتا ۔ پھر کس کو آسانی دوں؟

سگے بھائیوں کو؟

نہ ۔ وہ اپنا کماتے ہیں اپنا کھاتے ہیں اور ویسے بھی میرے کڑے وقت میں میرے بھائی کونسا کام آئے اور اگر ایک دو بار مدد کی بھی تو دس بار جتایا تھا ۔ 

ویسے بھی ان کی بیویاں میری بیوی کو کچھ نہیں سمجھتیں تو پھر ان کو آسانی دینا بنتا ہی نہیں ۔ کس کو آسانی دوں؟

محلے داروں کو؟

قطعآ نہیں یہ ہمسائے تو ھوتے ہی فضول ہیں ان کے بچے میرے بچوں کو مارتے ہیں ۔ یہ لوگ سیدھے منہ بات نہیں کرتے ۔ میرے گھر کی کنسویاں لیتے ہیں ۔ اوپر سے مسکرا کے ملتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بکواس کرتے ہیں ان ہمسایوں کو تو میں جوتی پر لکھتا ہوں ۔ آسانی اور ان کے لئے؟

ناں بابا ناں ۔ 

کیا؟ حکومت کی قرض اتارو مہم میں تو کسی صورت ایک پھوٹی کوڑی نہیں دونگا ارے بھائی یہ ڈاکو ہیں پہلے بھی قرض اتارنے کا لارا لگا کر قوم کو لوٹ چکے ہیں کئی بار ۔ میں نے تو اس وقت بھی کچھ نہیں دیا تھا ۔ اور ٹیکس کیوں دوں؟

ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہوں ۔ اب ایف بی آر کو بھی دوں تاکہ چور کھائیں؟ 

ہاں منگتے فقیروں کو آسانی دینے کا سوچا جاسکتا ہے مگر ایک منٹ ۔ یہ ہٹا کٹا مسٹنڈا ہاتھ پھیلا رہا ہے ۔ گلا پھاڑ پھاڑ کے مانگ رہا ہے اس کے ہاتھ پیر سلامت ہیں تو کوئی ڈھنگ کا کام کیوں نہیں کرتا؟

اور یہ مانگت اس کو تو دینا ہی گناہ کبیرہ ہے ۔ شکل سے ظاہر ہے کہ نشہ کرتا ہے اسکو کچھ دیا تو ان پیسوں سے نشہ کرے گا کل کا مرتا آج مرے گا اور گناہ مجھے ملے گا ۔ 

سوری اس جہاز کی کوئی مدد نہیں کی جاسکتی ۔ 

یہ ہاتھ پھیلانے والے بچے تو کسی قسم کی آسانی کے حقدار ھو ہی نہیں سکتے ۔ ارے بھائی یہ کوئی مانگنے کی عمر ہے؟

ان کو سکول جانا چاہئے تاکہ پڑھ لکھ کر پاکستان کی ترقی میں کردار ادا کریں اور ان کے گھٹیا ترین ماں باپ نے انکو مانگنے پر لگا دیا ہے ۔ میں ان بچوں کو دے کر انکی عادت پکی نہیں کرنا چاہتا کل مجھے اللہ کو بھی جواب دینا ہے ۔ 

معزرت۔ 

کیا؟

یہ جو تازی تازی بیوہ ھوئی ہے محلے میں؟

  اسکو کچھ دیا جاسکتا ہے کہ اسکا کمانے والا نہیں رہا

 مگر نہیں میں اس بیوہ کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ ارے بھائی نہ اس نے عدت کاٹی نہ رنگ برنگے کپڑے پہننا چھوڑے ۔ اور تو اور اس کے گھر میں غیر مردوں کا تانتا بندھا رہتا ہے ایک آتا ہے دوسرا جاتا ھے ۔ مجھے دیکھ کر یوں چھپ جاتی ہے جیسے میں کوئی موالی ھوں

 مرحوم شوہر  4 مرلے کا مکان چھوڑ کر مرا ہے مکان بیچ دے 

 ارے بھائی اس کے  بچوں نے کل ہی نئی سائیکل لی ہے یہ تو خود نوٹ چھاپنے کی مشین ہے اسکو پیسوں کی کیا ضرورت؟

میں اس بیوہ کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ 

معاف کرو ۔

ہاں اماں باپ کی تو میں ہر صورت مدد کرونگا ۔ 

مگر نہیں ابا اس عمر میں سٹھیا گئے ہیں ہر وقت میری بیوی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں ۔ الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں ۔ اور ماں؟ 

خدا کی پناہ ان کو تو ایک روپیہ بھی نہیں دونگا 

جو دو اپنی بیٹی کو بھر آتیں ہیں ۔ سارا دن میری بیوی کے کام میں کیڑے نکالتی ہیں ۔ نوکروں کی طرح سلوک کرتی ہیں ابا کو بھی کوئی آسانی نہیں دی جاسکتی  ارے بھائی بہت دیکر دیکھا ہے ۔ سب کچھ چوٹے بیٹے کے کھیسے میں ڈال دیتے ہیں ۔ اور ویسے بھی میرے تین بھائی اور ہیں اور خیر سے اچھا کماتے ہیں یہ ان سے لیں ناں  ۔ میرے بچے ابھی چوٹے ہیں ان کے مستقبل کے لئے مجھے آج سے سوچنا ہے ۔ اگر میں ان کو اچھی تعلیم نہ دے سکا تو برباد ھوجائیں گے ۔ میں خدا کی طرف سے ملنے والی آسانی کو سینت کے رکھونگا کل میرے بچوں کے کام آئے گی ۔

یہ سب نفس کی چالاکی ہے  جو ہمارے دل میں وسوسے ڈال کر ہمیں  آسانی تقسیم کرنے سے روک دیتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ نفس کی کوئی بات دلیل سے خالی نہیں ھوتی ۔ جو بندے اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اور اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں اللہ ان کو یہ ہنر عطا کر دیتا ہے کہ وہ شیطان اور رحمان کی آواز میں فرق کرنا سیکھ جاتے ہیں اور نفس کو بھوکا رکھ رکھ کے اسقدر کمزور اور لاغر کردیتے ہیں کہ پھر نفس ان پر حاوی نہیں ھوپاتا ۔ 

اور وہ تگڑے بندے اللہ کی طرف سے ملنے والی آسانی کو آگے تقسیم کردیتے ہیں ۔ اور تقسیم کرنے سے رزق کم نہیں ھوتا بلکہ تواتر سے ملنا شروع ھوجاتا ہے ۔ 

اس کے لئے بڑی عجیب سی مثال ہے مگر پوری بات اس مثال کے بنا سمجھ نہیں آسکتی ۔ ہمارے واش روم میں فلش کے اوپر پانی کی ایک ٹینکی ھوتی ہے ۔ اس ٹینکی میں پانی ہر وقت آتا ھے ۔ 

کبھی اس ٹینکی کو کھول کر دیکھئے گا پانی مسلسل آتا ہے اور ٹینکی بھرتی جاتی ہے ۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ ٹینکی میں موجود پلاسٹک کا ایک بال پانی بھرنے کے ساتھ ساتھ اوپر اٹھتا ہے اور پانی کے پائپ کے منہ پر فکس ھوجاتا ہے اور پانی ٹینکی میں گرنا بند ھو جاتا ھے ۔ ہم فراغت کے بعد بٹن دباتے ہیں اور پانی ٹینکی سے نکل کر غلاظت بہا لے جاتا ہے ۔اور پلاسٹک کا بال پانی کے پائپ کے منہ سے ہٹ کر نیچے گر جاتا ہے اور بڑی فراوانی سے پانی کی آمد شروع ھوجاتی ہے ۔ اور پھر ٹینکی بھر جانے پر بال پھر سے پانی کی آمد روک دیتا ہے ۔ دوستو ہماری جیب یا ہمیں ملنے والی آسانیاں بھی فلش کے اوپر لگی پانی کی ٹینکی کی طرح ہیں ۔ جیب بھر جانے پر نہ نظر آنے والا بال  رحمتوں اور برکتوں کی آمد روک دیتا ہے ۔ ٹینکی خالی ھوگی تو بھرے گی اسی طرح جیب خالی کروگے تو بھرے گی ۔ اور جیسے ٹینکی کا پانی فلش کی ساری غلاظت بہا لے جاتا ہے اسی طرح جیب خالی کرنے سے ہمارا پیسہ ہمارے گھر کی ساری نحوستیں ساری بیماریاں ساری پریشانیاں اور من کی غلاظت بہا کر لے جاتا ہے ۔ 

اور ٹینکی کی طرح جیب کا بھی پیچھے سے بہاو کبھی بند نہیں ھوتا ۔ جیب خالی کرتے رہیں اللہ بھرتا رہے گا 

اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا 

شرف بخشے آمین ثم آمین 


از قلم   افتخار افی

کتاب چکڑ چھولے

رات کی نماز کے دو عظیم فائدے"*

 *🌌 - "رات کی نماز کے دو عظیم فائدے"*


*📄 اللہ تعالی کا فرمان ہے: "إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ  قِيلًا" (سورۃ المزمل : ٦)*

*"رات کا اٹھنا یقینا (نفس کو) بہت زیر کرنے والا ہے اور قرآن پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں وقت ہے۔"*

 

✍🏻 مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمه اللہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :


*⬅ " وَطَأ بمعنی روندنا، پامال کرنا، سب کس بل نکال دینا۔ یعنی رات کو جاگ کر اپنے نفس کو اللہ کی عبادت پر آمادہ کرنا نفس کی سرکشی کو دور کرنے اور اس کے کس بل نکالنے کے لیے بہت موثر علاج ہے۔ البتہ اس سے نفس کو کوفت بہت ہوتی ہے۔ اور (وَطَأ عَلَی الاَمْرِ) کا دوسرا معنی کسی کام کو اپنی مرضی کے موافق آسان بنالینا بھی ہے۔ گویا شب بیداری اگرچہ نفس پر بہت گراں بار ہے تاہم یہ نفس کی اصلاح کے لیے اور جس کام کے لیے ہم آپ (صلی اللہ علیه وآله وسلم) کی تربیت کرنا چاہتے ہیں، نہایت مناسب اور مفید رہے گی۔*


*⬅ (أقْوَمُ قِیْلاً) یعنی بات کو زیادہ درست بنانے والا۔ یعنی شب بیداری کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس وقت دل و دماغ تازہ ہوتے ہیں۔ شوروغل نہیں ہوتا۔ لہذا اس وقت جو قرآن پڑھا جائے گا، طبیعت پوری توجہ سے اس میں غور و فکر کرے گی۔ گویا قرآن کے مطالب سمجھنے اور اس سے اثر پذیری کے لیے یہ وقت موزوں ہے۔*


📖 - |[ تيسير القرآن : ٥٤١/٤ ]|

 #تفسیر_قرآن

بات کرنے سے نسل کا پتہ چل جاتا ہے


بات کرنے سے نسل کا پتہ چل جاتا ہے ki


کسی زمانے میں ایک بادشاہ نے ایک قیدی کو کسی وجہ سے پھانسی کا حکم دیا اور جب قید خانے میں سے قیدی کو لایا گیا تو اس سے مرنے سے پہلے آخری خواہش پوچھی گئی قیدی نے کہا میں کیونکہ ایک اچھے گھرانے سے ہوں لہذا مجھے اعلی نسلی گھوڑوں سے پھانسی لگایا جائے
(اس زمانے میں پھانسی کے تخت پر چڑھا کر گھوڑوں سے بندھ کر گھوڑوں کو دوڑیا جاتا تھا اس طرح پھانسی کی سزا ہوتی تھی)خیر گھوڑوں کو لایا گیا تو قیدی بول اٹھا ان میں ایک تو نسلی ہے پر ایک نسلی نہیں ہے لہذا میری آخری خواہش مکمل نہیں ہوئی
بادشاہ نے گھوڑوں کے مالک کو بلوایا اور پوچھا کیا یہ بات سچ ہے گھوڑوں کے مالک نے جواب دیا بلکل ایک بلکل اصلی نسل کا لیکن دوسرا میں گدھے کا ملاپ شامل ہے بادشاہ نے حیران ہو کر قیدی سے پوچھا تمہیں کیسے یہ بات پتہ چلی کہ ایک گھوڑا نسلی ہے اور ایک نسلی نہیں۔
قیدی نے کہا جو نسلی ہے وہ بڑے آرام سے کھڑا تھا جبکہ جو ملاپ گدھے کا ہے وہ گدھے کی طرح کبھی ادھر ٹانگ مار کبھی منہ پھیر کبھی اچھل کر کبھی بیٹھ جا جس سے مجھے علم ہوا بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ سے بڑا متاثر ہوا اور قیدی کی پھانسی منسوخ کر کے اپنے وزیر سے کہا اس کی ایک روٹی میں اضافہ کر دیا جائے
کچھ دن بعد بادشاہ کے دربار میں ایک سنار دو ہیرے لے کر حاضر ہوا اور بادشاہ کو کہا اگر آپ کی رعایا میں سے کوئی یہ بتا دے کہ ان میں کون سا ہیرا اصلی اور کون سا نقلی اور اس اصلی اور نقلی میں فرق بتا دے تو میں آپ کو دونوں ہیرے انعام میں دے دوں گا
بہت سے لوگوں سے پوچھا مگر کوئی مکمل جانچ نہ کر سکا بادشاہ کے دماغ میں قیدی کا خیال آیا بادشاہ نے اس کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا سپاہی قید خانے میں سے قیدی کو لے کر حاضر ہوئے اور قیدی کو ہیرے جانچ پڑتال کے لیے دئیے گئے قیدی نے کچھ ہی لمحوں میں بتا دیا کہ ایک اصلی اور دوسرا نقلی ہے بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا ؟
قیدی نے کہا کہ اصلی ہیرا رگڑنے سے کبھی گرم نہیں ہوتا جبکہ نقلی ہیرا رگڑنے سے گرم ہو جاتا ہے سنار نے وہ دونوں ہیرے بادشاہ کو انعام میں دے دئیے اور چلتا بنا
بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ پر بہت زیادہ خوش ہوا اور سپاہیوں سے ایک اور روٹی بڑھانے کا حکم دیا دوپہر کو جب سپاہی قیدی کو ایک اور روٹی اضافے کے ساتھ دینے آئے تو قیدی نے کہا بادشاہ بھی کسی لانگڑی کا بیٹا ہے سپاہیوں نے قیدی کی یہ بات بادشاہ تک پہنچا دی بادشاہ کو غصہ آیا اور سپاہیوں سے قیدی کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
اور قیدی سے اس بات کی وضاحت مانگی گئی قیدی نے بادشاہ کو کہا اپنے خاندان کے بارے میں کسی سے پتہ کروا لو۔
بادشاہ کی سلطنت میں سب سے ادھیڑ عمر شخص کو ڈھونڈا گیا اور اس سے بادشاہ کے آباوواجداد کے بارے میں پوچھا گیا ادھیڑ عمر شخص نے بتایا کہ یہاں اس بادشاہ سے پہلے اس کا باپ بادشاہ تھا لیکن وہ بادشاہ بننے سے پہلے لانگر ی تھا کیونکہ اس بادشاہ سے پہلے ایک بادشاہ تھا اس کا اپنا کوئی بیٹا نہ تھا اس بادشاہ نے اعلان کیا تھا کوئی ایسا شخص جو میری رعایا کو بھوکا نہ مرنے دے تو آپ کا باپ لانگر ی تھا اس دربار کا اس نے حامی بھری کہ میں رعایا کو بھوک سے نہیں مرنے دوں گا اس طرح بادشاہ سلامت آپ کے باپ کو سلطنت دی گئی تھی
بادشاہ نے قیدی سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں لانگر ی کا بیٹا ہوں
قیدی نے کہا کہ میں نے جتنے حکمت اور دانائی کی باتیں تمہیں بتاتا تم بجائے مجھے آزادی دینے یا ہیرے جواہرات دینے کی بجائے میری روٹی میں اضافہ کر دیتے تھے اگر تمہاری جگہ پر کوئی خاندانی شخص ہوتا وہ مجھے ضرور کوئی ہیرے جواہرات دیتا اور مجھے قید خانے سے رہا کرتا لیکن تیری حرکتیں تیری نسل کا پتا بتاتی ہیں

انسان اپنی شہرت پیسے شکل سے نہیں بلکہ اپنی حرکتوں سے اپنی نسل کا پتا بتاتی ہیں۔۔۔۔۔

غدار _چکور

#غدار_چکور

سلطان محمود غزنوی کے پاس ایک شخص ایک چکور لایا جسکا ایک پاوں نہیں تھا۔ جب سلطان نے اس سے چکور کی قیمت پوچھی تو اس شخص نے اس کی قیمت بہت مہنگی بتائی۔ سلطان نے حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ اسکا ایک پائوں بھی نہیں ہے پھر بھی اس کی قیمت اتنی زیادہ کیوں بتا رہے ہو؟تو وہ شخص بولا کہ جب میں چکوروں کا شکار کرنے جاتا ہوں تو یہ چکور بھی شکار پر ساتھ لے جاتا ہوں۔  وہاں جال کے ساتھ اسے باندھ لیتا ہوں تو یہ بھہت عجیب سی آوازیں نکالتا ہے اور دوسری چکوروں کو بلاتا ہے۔  اس کی آوازیں سن کر بہت  سے چکور آ جاتے ہیں اور میں انہیں پکڑ لیتا ہوں۔ 

سلطان محمود غزنوی نے اس چکور کی قیمت اس شخص کو دے کر چکور کو ذبح کردیااس شخص نے پوچھا کہ اتنی قیمت دینے کے باوجود اس کو کیوں ذبح کیا؟ سلطان نے اس پر تاریخی الفاظ کہے:

"جو دوسروں کی دلالی کیلئے اپنوں سے غداری کرے اس کا یہی انجام ہونا چاہیے"

کرم دین چوکیدار

   کرم دین چوکیدا 

 اپنی سائیکل کے ہینڈل سے گوشت کی چند تھیلیاں لٹکائے تیز تیز پیڈل مارتا ہوا اپنی دھن میں چلا جا رہا تھا اس کے چہرے پہ ایک انوکھی سی مسرت اور طمانیت کے آثار نظر آ رہے تھے ایک انتہائی غریب سے محلے میں پہنچ کر اس نے ایک گھر کے سامنے سائیکل روکی اور گھر کا دروازہ بجا دیا کچھ دیر بعد اندر سے ایک نسوانی آواز آئی کہ جی کون؟ باجی میں ہوں کرم دین چوکیدار۔۔۔! اس کے بلند آواز سے جواب دیتے ہی دروازہ کھلا اور دوپٹے کے پلو سے چہرہ ڈھانپے ایک عورت نظر آئی!
کرم دین نے نگاہیں جھکاتے ہوئے اس خاتون کو بڑے احترام سے سلام کیا حال احوال پوچھا عید کی مبارک باد دی اور گوشت کی ایک تھیلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ لیں باجی یہ آپ کا حصہ ہے۔ 
اس عورت نے تھیلی لیتے ہوئے بڑے گلوگیر لہجے میں کرم دین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کرم دین میں تیرا شکریہ ادا نہیں کر سکتی بس اللہ کے سامنے اپنے بچیوں کی یتیمی پیش کر کے تیرے لئے ہمیشہ خیر مانگتی رہتی ہوں یہ سن کر کرم دین کی آنکھیں بھی ڈبڈبا گئیں اس نے جلدی سے چہرہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا کہ دیکھ بہن تجھے کتنی بار کہا ہے کہ ایسی باتیں نا کیا کر مجھے اچھا نہیں لگتا تو میری بہنوں کی طرح ہے اور تیری بیٹیاں مجھے اپنے بیٹیوں کی طرح ہی عزیز ہیں، اچھا میں اب چلتا ہوں مجھے اور گھروں میں بھی انکا حصہ پہنچانا ہے یہ کہہ کر وہ اس خاتون کا جواب سنے بغیر سائیکل پہ بیٹھا اور جلدی سے آگے بڑھ گیا۔
یہ حاکم علی مالی کا گھر تھا اور یہ خاتون حاکم علی کی بیوہ تھی کرم دین چوکیدار اور حاکم علی مالی ایک بہت بڑے سیٹھ کے بنگلے پہ کام کرتے تھے دونوں میں اگرچہ کچھ خاص تعلق نہیں تھا بس اچھی سلام دعا تھی اور روز آتے جاتے ایک دوسرے کا حال احوال پوچھ لیتے تھے دونوں میں غریبی کے علاوہ ایک بات یہ بھی مشترک تھی کہ دونوں کی چار چار بیٹیاں ہی تھیں بیٹا کوئی نہیں تھا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ حاکم علی کام پہ نا آیا یوں تو وہ پہلے بھی کئی بار چھٹی کر لیا کرتا تھا مگر آج شاید سیٹھ صاحب کے کچھ مہمان آنے تھے اس لئے انہوں نے کرم دین کو اسکا پتا کرنے کے لئے اس کے گھر بھیج دیا کرم دین وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس کے گھر تو گویا قیامت صغریٰ برپا تھی حاکم علی کی بیوی اور بیٹیاں دھاڑیں مار مار کے رو رہی تھیں حاکم علی رات سویا تو صبح اٹھا ہی نہیں وہ اپنی بیوی اور بیٹیوں کو اس دنیا کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے سو چکا تھا۔
کرم دین بےچارہ خود بھی بہت غریب آدمی تھا اور بال بچے دار بھی مگر اس دن سے ہر چھوٹی بڑی عید پہ جتنا ہو سکتا تھا ان کے لئے کوئی نا کوئی چیز اور گوشت پہنچا دیا کرتا تھا کرم دین جب پہلی بار ان کے ہاں گوشت لے کر آیا تو حاکم علی کی بیوی نے روتے ہوئے کہا کہ کرم دین اللہ تیرا بھلا کرے آج میرے بچے ڈیڑھ دو سال بعد پہلی بار گوشت کھائیں گے بس یہ جملہ سننا تھا کہ اس کے دل پہ خنجر سے چل کے رہ گئے بس وہ دن تھا اور آج کا دن کہ وہ ان کے ساتھ ساتھ ایسے چار پانچ اور گھروں کی بھی وقتا فوقتا مدد کرتا رہتا تھا۔
باقی گھروں میں بھی گوشت کی تھیلیاں پہنچا کر وہ واپس پلٹا تو کافی دیر ہو چکی تھی اس نے سائیکل موڑی اور اپنے گھر کی راہ پکڑ لی جیسے جیسے اس کا گھر نزدیک آ رہا تھا اس کے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات بڑھتے جا رہے تھے رستے میں ایک جگہ ایک نلکے پہ رک کر اس نے سائیکل صاف کرنے والا کپڑا بھگو کر ہینڈل پہ لگے گوشت اور خون کے نشانات کو صاف کیا وہ شاید یہ نشانات اپنے گھر والوں سے چھپانا چاہتا تھا اور پھر وہ دوبارہ اپنے گھر کی طرف چل دیا۔
یہ اس کا ہر سال کا معمول تھا کہ وہ صبح سویرے اپنے پرانے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھنے اپنی کچی بستی سے بہت دور شہر کے سب سے بڑے محلے میں جاتا اور عید کی نماز کے بعد لوگوں کے گھروں سے گوشت جمع کرنا شروع کر دیتا گو کہ وہ ذاتی طور پہ بہت خوددار انسان تھا کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا اس کے لئے مر جانے کے برابر تھا مگر حاکم علی کی بیوہ اور یتیم بچیوں کی خاطر وہ یہ کام بھی کر گزرتا وہ دوپہر تک گوشت جمع کرتا اور دوپہر کے بعد ان گھروں میں جا کے دے آتا اور وہ لوگ یہی سمجھتے کہ شاید کرم دین کی اپنی قربانی ہوتی ہے۔
اور واقعی یہ کرم دین کی قربانی ہی تھی وہ اپنی عزت نفس اور خودداری کے گلے پہ چھری پھیر کر ہی ان کے لیے لوگوں کے سامنے دامن پھیلا کر گوشت اکٹھا کیا کرتا تھا اور ظاہر ہے اس کے لئے اس سے بڑی قربانی اور کیا ہوسکتی تھی۔ 
سال سال بعد کرم دین کی بدولت گوشت کا مونہہ دیکھنے والے یہ کب جانتے تھے کہ خود کرم دین کے گھر سال کے بعد بھی گوشت نہیں پکتا کئی بار کرم دین کے جی میں آیا بھی کہ وہ ایک آدھ تھیلی اپنے گھر بھی لے جائے مگر ہر بار اس کا ضمیر اسکے آڑے آجاتا اور اپنے بچوں کو یہ گوشت چاہتے ہوئے بھی نا کھلا پاتا۔
کرم دین کی بستی قریب آچکی تھی اس نے اپنی آنکھوں کی نمی کو لوگوں سے نظریں بچا کر صاف کیا اور اپنے درد و الم کو چہرے کے مصنوعی تاثرات سے چھپانے کی کوشش کرتا ہوا اپنی گلی میں مڑ گیا۔ اب اس کے سامنے اس کے اپنے گھر کا دروازہ موجود تھا جس کے اس پار غربت و افلاس کا لبادہ اوڑھے اس کی بیوی اور بیٹیاں اس کی منتظر تھیں۔
کرم دین نے کچھ لمحے توقف کر کے دروازہ بجا دیا اس کی چھوٹی بیٹی نے دروازے کی درز میں سے اپنے باپ کو دیکھ کر دروازہ کھول دیا کرم دین سر جھکائے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گیا اس نے اسی طرح اونچی آواز میں سب کو سلام کر کے سر اٹھایا تو دیکھ کے حیران رہ گیا کہ اس کے صحن کے بیچوں بیچ کھانے پکانے کے سامان کا ڈھیر لگا ہوا ہے اور ساتھ ہی ایک تھیلے میں اچھا خاصا گوشت بھی پڑا ہوا ہے۔
کرم دین نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا؟ اسکی بیوی بولی کہ ایک بہت بڑی گاڑی میں کوئی بڑا آدمی آیا تھا وہ کہہ رہا تھا کہ وہ آپ کو جانتا ہے اور ساتھ میں ایک چٹھی بھی دے کر گیا ہے میں نے سامان تو اس کے اصرار پہ رکھ لیا مگر اب آپ کے انتظار میں ہی تھی اور ساتھ ہی ایک لفافہ کرم دین کی طرف بڑھا دیا کرم دین نے جلدی سے لفافہ کھولا اور اس میں موجود چٹھی پڑھنے لگ گیا
سلام دعا کے بعد لکھا تھا کہ۔۔۔ 
یار کرمے میں تجھے ایک عام سا بندہ سمجھتا رہا مگر تو تو بہت بڑا آدمی نکلا، اتنا بڑا کہ تیرے سامنے مجھے اپنا آپ بہت چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے۔ مجھے تیرے بارے میں کچھ باتیں کہیں سے پتا چلیں تھیں پھر میں نے سارا دن تیرا پیچھا کیا اور حاکم علی کے گھر تک جا پہنچا وہاں سے مجھے تیرے بارے میں باقی سب پتا چل گیا اور جب تیرے گھر آیا تو پتا چلا کہ تیرے اپنے گھر کے حالات بھی بالکل انہی لوگوں جیسے ہیں
کرمے یہ کچھ چیزیں عید کا تحفہ سمجھ کر قبول کر لے تجھے اللہ کا واسطہ انکار نا کرنا آج سے تیرا اور باقی پانچوں گھروں کا سارا خرچ میرے ذمہ ہوا باقی باتیں شام کو بنگلے پہ کرتے ہیں اور ہاں آج ڈیوٹی پہ ذرا جلدی آ جانا۔ منجانب ''تیرا سیٹھ''
کرم دین کی آنکھوں سے آنسو نکل کر چٹھی کی تحریر بگاڑ رہے تھے اور اسکی زبان پہ بے اختیار جاری تھا۔۔۔ اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ۔“ 

قابل عزت

*کیا میں قابلِ عزت ھوں؟* حصہ دوئم

تحریر:-عزیزخان ایڈووکیٹ لاہور 

 میرے سابقہ افسران بالا نے میری پچھلی تحریر دیکھی اور پڑھی اُنہیں یہ لگا کہ میں نے کسی خاص افسر کی ذات پر بات کی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں  کہ اُن کے ہاتھ میں کسی کی نوکری ، عزت، ذلت، پروموشن، اور بچوں کا مُستقبل ہے تو وہ بلکُل غلط ہیں 
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے بارے میں انکوائری کرائی گی کہ 1982 کا کون Asi ہے جس نے ایسی گُستاخی کی ہے آخر  کار مجھے ٹریس کر لیا گیا مجھے یہ بھی جتلایا گیا کہ میری پولیس میں بھرتی اِسی  Psp کلاس کی مرہون منت تھی 

میں بلکل تسلیم کرتا ہوں لیکن شاید اُن کو یاد نہیں کہ مارشل لا کے اُس دور میں کسی کی جُرت نہیں تھی کہ دھاندلی یا سفارش سے بھرتی کرتا ہر رینج کی سلیکشن ڈیپٹی مارشل لا ایڈمنیسٹیٹر خود دیکھتا تھا ورنہ میں اور میرے دوست جن کی کوئی سفارش نہیں تھی پولیس میں بھرتی نہ ہو سکتے؟
انٹرویو میں رات کو Dig صاحبان دوسری رینج میں جایا کرتے تھے تاکہ کوئی سفارش نہ مانیں 
اور پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں تمام ایماندار افسران کے ہوتے ہوئے نواز شریف نے اپنے سیاستدانوں کے ذریعے بغیر کسی امتحان اور انٹرویو کے بھرتی کروائی جن میں کُچھ جرائم پیشہ افراد بھی تھے جس کی نشاندہی  سابقہ آئی جی عباس خان نے اپنی رپورٹ میں کی تھی 
مزا تو تب تھا کہ اُس وقت کے آئی جی اور ڈی آئی جیز ان بھرتیوں سے انکار کر دیتے یا پھر اُن کو نوکریوں سے نکال دیتے ؟

میری پوری زندگی اور سروس کا نچوڑ ہے  کہ عزت ذلت زندگی موت پوسٹنگ ٹرانسفر صرف اللہ کے ھاتھ میں ہےجہاں آپ نے جانا ہے رہنا  ہے کھانا ہے لکھ دیا گیا ہے اور ھم سب اُسی رب کی ذات کے مُحتاج ہیں

میں پہلے بھی اپنی ایک پوسٹ میں لکھ چُکا ہوں کہ میری تنقید کسی ایک شخص یا کسی آفسر کی ذات پر نہیں بلکہ اس بوسیدہ سسٹم پر ہے جس کا ہم شکار ہیں  اور انگریز کے بنائے نظام کے غلام ھیں

 ہمارے ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی دوست کے بیٹے کی شادی پر بہُت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس ملازمین  دوستوں سے مُلاقات ہوئی  جنہوں نے میری اس کاوش کو سراہا اور دل ہی دل میں نہیں بلکہ مُنہ پر تعریف کی کیونکہ اُن کو وہاں کوئی خطرہ نہ تھا ورنہ یہ تو سب دل ہی دل میں تعریف کرنے سے ہی ڈرتے ہیں  حالانکہ یہ ان کے دل کی آواز ہے 

میری  آج کی تحریر کا مقصد ہماری عوام کو یہ بتلانا مقصود ھے کہ اُن کے ذہن  میں جو پولیس کے خلاف موروثی نفرت ھے وہ غلط ھے میرے بہت سے دوست میری اس بات سے شاید اتفاق نہ کریں  
کہ پولیس ملازمان بھی انسان ھیں اُن کی ضروریات ھیں ان ی فیملی لائف ہے بچے ہیں پر شاید اُنہیں روبوٹ سمجھا جاتا ہے جو صرف ظُلم کرتے ھےں یا گالیاں بکتے ھیں

سارے پولیس ملازمین ایسے ہرگز نہیں ہیں نہ ہی بُرے ہیں گھر سے دوری بچوں کی تعلیم کا فکر 24 گھنٹہ ڈیوٹی میڈیکل سہولتوں کا نہ ہونا افسران کی گالیاں اور بد تمہیزیاں بھی ان کی عوام سے زیادتی کا سبب ہو سکتی ہیں 

اب اس بات کو تسلیم کیا جا رھا ھے کہ محکمہ پولیس کا بوسیدہ نظام ختم ھونا چاھیے تفتیش مقدمات اور فیلڈ میں تجربہ اور تعلیم کی مساوی اہمیت ہو  صرف تعلیم کی بنیاد پہ css کرنے والی PSP کلاس عقلِ کُل نہیں کہ اُسے ایک ایم اے پاس انسپکٹر  یا Dsp پر فوقیت دی جائے جن کا تجربہ اُن کی عمروں  سے زیادہ ہوتا ہے  
آپ لوگ اس بات پر غور کریں کہ مقدمات کی تفتیش صرف Asi ,Si,Inspectors  ھی کرتے ھیں
اے ایس پی حضرات کا تجربہ بلکل نہیں ھوتا ایک سال کی ملازمت کے بعد وہ حلقہ افسر لگا دیے جاتے ھیں اور 30/30 سال پرانے تجربہ کار تفتیشی افسران اُن کے سامنے دست بدستہ  کھڑے ھوتے ھیں اور ان کی جُرت نہیں کہ ان کی حُکم عدولی کر سکیں 

پھر یہی اے ایس پی تین سال بعد ایس پی ھو کہ کسی ضلع میں سکیل 18 کے Dpo لگا دیے جاتے ھیں جبکہ  Dpo سکیل 19 کا ھونا ضروری ھے 

شہباز شریف نے جہاں پنجاب کو فتح کرنے کیلئے جہاں کئی تاریخی کام کیے وھاں یہ کام بھی کیا کہ سکیل 18 کے Dpo اور Dco اضلاع میں تعینات کر دیے تاکہ وہ احسان مند رہیں ، ڈرے رہیں اور بوقت ضرورت انہیں رگڑا بھی لگایا جا سکے
 مُلک میں تبدیلی آئی مگر صرف چہرے بدلے پالیسیاں وہی ہیں پنجاب میں گریڈ 19 کے ایس ایس پی ہوتے ہوئے آج بھی ناتجربہ کار گریڈ 18 کے ایس پی بطور Dpo اور Dco تعینات ہیں جو ضلع چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے 

جب تین چار سالہ نا تجربہ کار Dpo کسی ضلع میں تعینات ھوتا ھے تو وہ کیا حرکات کرتا ھے؟
یہ محکمہ پولیس کے ملازمان تو جانتے ھیں کاش آپ بھی جان پاتے کہ کروڑوں روپے کے فنڈز ان کے ( رحم کرم) پر ھوتے ھیں جنکا کوئی ایکسٹرنل آڈٹ نہیں ہوتا اور جو آڈٹ ھوتا ھے اُس کا بھی کوئی آڈٹ نہیں ہوتا ؟؟

محکمہ پولیس میں ملازمت کرنے والے یہ چھوٹے ملازمین جب 60 سال پورے کرنے کے بعد ریٹائر ھوتے ھیں تو ان کا اپنا ذاتی گھر تک نہیں ھوتا اور ان ملازمین  کو ملنے والی رقم اتنی کم ھوتی ھے کہ اس سے نہ تو کوئی کاروبار کیا جا سکتا ہے نہ پلاٹ لے کر اپنا گھر بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں کی شادیاں کر سکتے ہیں 

محکمہ پولیس میں سزا دینے کا نظام بہُت تیز ھے پر یہ سزا صرف رینکرز ملازمان کے لیے ہے 
میں نے اپنی 37 سالہ ملازمت میں اور بطور Dsp کبھی کسی Asp یا Psp افسر کو اپنے ساتھ نہ تو کسی اردلی روم میں پیش ھوتے دیکھا نہ اُنہیں کبھی سزا ملتے دیکھی اور نہ اُن کی کبھی پروموشن رُکی؟ 

پولیس ریفارمز کی باتیں کرنے وال 72 سال سے خاموش ہیں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے یہ سب جاگ جاتے ہیں  کالی بھیڑوں کو نکالنے کی باتیں دعوے  کیے جاتے ہیں
سفید بھیڑیے کالی بھیڑوں کی قُربانی کے بعد اپنے آقاوں کو مطمعن کرتے ہیں اور بار بار ایک ہی کہانی دُہرائی جاتی ہے 
پالیسیاں بناتے وقت جو افسران فیلڈ میں کام کرتے ہیں اُن سے پوچھا تک نہیں جاتا اُن کو سُنا تو جائے کہ اُن کے کیا مسائل ہیں ؟

میری لکھی گئیں یہ تمام باتیں میرے اور میرے ساتھ ملازمت کرنے والے ملازمین کے دل کی آواز ہیں جو نہ کبھی اُٹھائی گئیں نہ سُنی گئیں میں نے تو یہ محکمہ چھوڑ دیا پر ایک دن آئے گا جب یہ آواز اُٹھائی بھی جائے گی  اور سُنی بھی جائے گی

جج یا چوہدری

دونوں فریق پہنچ چکے تھے ڈیرے کی چارپاٸیاں کم پڑ گٸی تھیں ملازم ڈیرہ کے کمرہ میں پڑی دو چار کرسیاں بھی اٹھا لایا
اسی دوران ہی چوہدری صاحب دھوتی کرتا پہنے حقہ ہاتھ میں تھامے سلام کرتے ہوے جج کی کرسی کی طرح سامنے رکھی چارپاٸی پر بیٹھ گٸے اور اپنے ملازم بوٹے کو آواز لگاتے ہوے کہا بوٹے سب کے لیے فسکلاس سی چاۓ بنا کرلاٶ
جس بھاٸی نے حقہ کا کش لگانا ہو وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ سکتا ھے یہ کہکر چوہدری صاحب نذیرے سے مخاطب ہوے ہاں نذیرے اپنی بات سناٶ
نذیرے نے بات شروع کرتے ہوے کہا چوہدری صاحب آپکو پتہ ہی ھے کے میں نے اپنی بیٹی کی شادی مختارے کے بیٹے کے ساتھ کی تھی دونوں میں روز لڑاٸی جھگڑا رہتا تھا لڑکا نشہ کرتا تھا اور اپنی بیوی کو خرچہ پانی بھی نہیں دیتا تھا سمجھایا بجھایا بھی بہت مگر سدھرا نہیں مجبوری میں ہم نے عدالت کے ذریعے طلاق لے لی اب لڑکی کا سامان جہیز ان کے گھر پڑا ھے مختارا سامان جہیز واپس نہیں کر رہا میں نے بیٹی کو آگے کسی کے گھر بٹھانا ھے بغیر سامان کے کوٸی کنواری لڑکی کا رشتہ نہیں لیتا میری بیٹی تو پھر طلاق یافتہ ھے اور دوسری بار پھر نیا سامان جہیز بناٶ اتنی میری پسلی نہیں
چوھدری صاحب نے حقہ کا لمباکش لگاتے ہوے کہا طلاق تو عدالت سے لے لی مگر سامان جہیز عدالت سے کیوں نہیں لیا
نذیرے نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوے کہا چوہدری صاحب کیا بتاٸیں کیس تو سامان واپس لینے کا بھی کر رکھا ھے مگر سال ہو گیا ھے کیس ابھی ہماری شہادت پر ہی چل رھا ھے اور مختارا کہتا ھے ابھی تو فیملی کورٹ میں کیس ھے پھر سیشن کورٹ ہاٸیکورٹ سپریم کورٹ میں تمہاری زندگی رول دونگا برباد کر دونگا مگر سامان نہیں دونگا طلاق یافتہ بیٹی گھر بٹھا کر میری ایک ایک رات سال کیطرح گزر رہی ھے چوہدری صاحب مجھ پر نیکی کر کے سامان واپس دلوا دیں نذیرا تقریباً رو ہی دیا تھا
چوہدری صاحب پھر مختارے سے مخاطب ہوے ہاں مختارے تو بول تو کیا کہتا ھے مختارے نے عدالت میں دیے گۓ بیان کی طرح کہا چوہدری صاحب ہمیں تو کوٸی سامان ملا ہی نہیں اور باقی یہ خود ہی عدالت میں گٸے ہیں عدالت سے ہی کرواٸیں فیصلہ اب
چوہدری صاحب نے مختارے کی جانب گھوری ڈالتے ہوے کہا زیادہ چالاک بننے کی ضرورت نہیں یہ پنچایت ھے عدالت نہیں اور باقی مجھے سب کچھ سچ سچ اگلوانا خوب اچھی طرح آتا ھے اگلے ہی لمحے مختارا سب کچھ سچ سچ مان چکا تھا اور سامان واپس کرنے پر بھی رضا مند ہو گیا تھااس دوران ہی چاۓ آ گٸ سب معاملہ نمٹا کر چاۓ پینے لگے مختارا بولا چوہدری صاحب آپکے ڈیرہ کی چاۓ بڑی کمال کی ہوتی ھے چوہدری صاحب کہنے لگے کل ہم سب تمہارے گھر کی چاۓ پینے آٸینگے سامان بھی تیار رکھنا
اگلے دن مختارے کے گھر سے سامان وصول کروا کر چوہدری صاحب نے نذیرے کو کہا اب عدالت جاکر اپنا کیس واپس اٹھا لاٶ
نذیرا جب کیس واپس لینے عدالت گیا اسے چوہدری کا کچہ پکا ڈیرہ پختہ عدالتی بلڈنگ سے کہیں زیادہ خوبصورت لگا اور جب اس نے انگریزی سوٹ بوٹ میں ملبوس جج کی کرسی کی جانب نظر دوڑاٸی اسے چارپاٸی پر دھوتی کرتے میں ملبوس حقہ پیتا چوہدری یاد آ گیا وہ سوچنے لگا جج تو چوہدری ہوتے ہیں سردار ہوتے ہیں عدالتوں کے بابو تو تاریخیں دیکر تنخواہ وصول کرنے آتے ہیں جب کیس سامان جہیز کا چل رہا ہو تو اس کا مطلب ہوتا ھے کسی بوڑھے کی طلاق یافتہ بیٹی اس سامان جہیز کے فیصلہ کے انتظار میں اپنے بوڑھے ماں باپ کے کندھوں پر مزید بوجھ بن کر بیٹھی ھے خدارا ایسے کیسوں کے فیصلے جج بن کر نہیں چوہدری، سردار یا ملک بن کر کر دیا کرو۔۔۔

ایک سچا واقعہ

*ایک ایسا سچا واقعہ جس کو پڑھنے سے بندے کا ایمان  تازہ  ھوجائے.*

عبداللہ طاہر جب خراسان کے گورنر تھے اور نیشاپور اس کا دارالحکومت تھا تو ایک لوہار شہر ہرات سے نیشاپور گیا اور چند دنوں تک وہاں کاروبار کیا۔ پھر اپنے اہل و عیال سے ملاقات کے لئے وطن لوٹنے کا ارادہ کیا اور رات کے پچھلے پہر سفر کرنا شروع کردیا۔ ان ہی دنوں عبد اللہ طاہر نے سپاہیوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ شہر کے راستوں کو محفوظ بنائیں تاکہ کسی مسافر کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ 

اتفاق ایسا ہوا کہ سپاہیوں نے اسی رات چند چوروں کو گرفتار کیا اور امیر خراسان (عبد اللہ طاہر) کو اسکی خبر بھی پہنچا دی لیکن اچانک ان میں سے ایک چور بھاگ گیا۔ اب یہ گھبرائے اگر امیر کو معلوم ہوگیا کہ ایک چور بھاگ گیا ہے تو وہ ہمیں سزا دے گا۔ اتنے میں انہیں سفر کرتا ہوا یہ (لوہار) نظر آیا۔ انھوں نے اپنی جان بچانے کی خاطر اس بےگناہ شخص کوفوراً گرفتار کرلیا اور باقی چوروں کے ساتھ اسے بھی امیر کے سامنے پیش کردیا۔ امیرخراسان نے سمجھا کہ یہ سب چوری کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں اس لئے مزید کسی تفتیش و تحقیق کے بغیر سب کو قید کرنے کا حکم دے دیا۔

نیک سیرت لوہار سمجھ گیا کہ اب میرا معاملہ صرف اللہ جل شانہ کی بارگاہ سے ہی حل ہوسکتا ہے اور میرا مقصد اسی کے کرم سے حاصل ہوسکتا ہے لہٰذا اس نے وضو کیا اور قید خانہ کے ایک گوشہ میں نماز پڑھنا شروع کردی۔ ہر دو رکعت کی بعد سر سجدہ میں رکھ کر اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں رقت انگیز دعائیں اور دل سوز مناجات شروع کردیتا اور کہتا۔ ’’ اے میرے مالک! تو اچھی طرح جانتا ہے میں بےقصور ہوں‘‘۔ جب رات ہوئی تو عبد اللہ طاہر نے خواب دیکھا کہ چار بہادر اور طاقتور لوگ آئے اور سختی سے اس کے تخت کے چاروں پایوں کو پکڑکر اٹھایا اور الٹنے لگے اتنے میں اس کی نیند ٹوٹ گئی۔ اس نے فوراً لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ پڑھا۔ پھر وضو کیا اور اس احکم الحاکمین کی بارگاہ میں دو رکعت نماز ادا کی جس کی طرف ہر شاہ و گدا اپنی اپنی پریشانیوں کے وقت رجوع کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوبارہ سویا تو پھر وہی خواب دیکھا اس طرح چار مرتبہ ہوا۔ ہر بار وہ یہی دیکھتا تھا کہ چاروں نوجوان اس کے تخت کے پایوں کو پکڑ کر اٹھاتے ہیں اور الٹنا چاہتے ہیں۔امیر خراسان عبد اللہ طاہر اس واقعہ سے گھبرا گئے اور انہیں یقین ہوگیا کہ ضرور اس میں کسی مظلوم کی آہ کا اثر ہے جیسا کہ کسی صاحب علم و دانش نے کہا ہے:
نکند صد ہزار تیر و تبر
آنچہ یک پیرہ زن کند بہ سحر
ای بسا نیزۂ عدد شکناں 
ریزہ گشت از دعاے پیر زناں
یعنی لاکھوں تیر اور بھالے وہ کام نہیں کر سکتے جو کام ایک بڑھیا صبح کے وقت کردیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ دشمنوں سے مردانہ وار مقابلہ کرنے اور انہیں شکست دینے والے، بوڑھی عورتوں کی بد دعا سے تباہ وبرباد ہوگئے۔

امیر خراسان نے رات ہی میں جیلر کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ بتاؤ! تمہارے علم میں کوئی مظلوم شخص جیل میں بند تو نہیں کردیا گیا ہے؟ جیلر نے عرض کیا۔ عالیجاہ! میں یہ تو نہیں جانتا کہ مظلوم کون ہے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ میں ایک شخص کو دیکھ رہا ہوں جو جیل میں نماز پڑھتا ہے اور رقت انگیز و دل سوز دعائیں کرتا ہے۔

امیر نے حکم دیا: اسے فوراً حاضر کیا جائے۔ جب وہ شخص امیر کے سامنے حاضر ہوا تو امیر نے اس کے معاملہ کی تحقیق کی۔ معلوم ہوا کہ وہ بے قصور ہے۔امیر نے اس شخص سے معذرت کی اور کہا: آپ میرے ساتھ تین کام کیجئے۔
نمبر۱۔ آپ مجھے معاف کردیں۔
نمبر۲۔ میری طرف سے ایک ہزار درہم قبول فرمائیں۔
نمبر۳۔ جب بھی آپ کو کسی قسم کی پریشانی درپیش ہو تو میرے پاس تشریف لائیں تاکہ میں آپ کی مدد کر سکوں۔

نیک سیرت لوہار نے کہا: آپ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میں آپ کو معاف کردوں تو میں نے آپ کو معاف کردیا اور آپ نے جو یہ فرمایا کہ ایک ہزار درہم قبول کرلوں تو وہ بھی میں نے قبول کیا لیکن آپ نے جو یہ کہا ہے کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہو تو میں آپ کے پاس آؤں، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔

امیر نے پوچھا: یہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ تو اس شخص نے جواب دیا کہ وہ خالق و مالک جل جلالہ جو مجھ جیسے فقیر کے لئے آپ جیسے بادشاہ کا تخت ایک رات میں چار مرتبہ اوندھا کر سکتا ہے تو اسکو چھوڑ دینا اور اپنی ضرورت کسی دوسرے کے پاس لے جانا اصولِ بندگی کے خلاف ہے۔ میرا وہ کون سا کام ہے جو نماز پڑھنے سے پورا نہیں ہو جاتا کہ میں اسے غیر کے پاس لے جاؤں۔ یعنی جب میرا سارا کام نماز کی برکت سے پورا ہوجاتا ہے تو مجھے کسی اور کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔ 

(ریاض الناصحین ص:۱۰۵،۱۰۴)
صرف آپ ہی پڑھ کر آگے نہ بڑھ جائیں بلکہ اوروں کو بھی شریک کریں, یہ صدقہ جاریہ ہوگا, اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہو گا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردہ تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو .. جزاک اللہ خیرا کثیرا.

مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ

حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ہندوستان
میں رام پور جیل میں تھے، جیل میں اناج دیا گیا کہ ان کا آٹا پسواو ، 
کہا گیا عطاء اللہ تم باغی ہو اس لئے تمہاری یہی سزا ہے کہ تم آج چکی پیسو۔

عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے مزہ آیا، میں نے رومال اتار کر رکھ دیا، وضو کرکے بسم اللہ پڑھ کر میں نے چکی بھی پیسنی شروع کر دی، اور ساتھ میں سورہ یاسین کی تلاوت بھی شروع کر دی۔

عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے قرآن کو آواز کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تو اس وقت جیل کا سپریٹینڈینٹ قریب تھا وہ  نکل کر آیا اور قریب آکر روتا ہوا کھڑا ہو گیا اور جیل کا دروازہ کھلوا دیا،
کہنے لگا،

عطاء اللہ تجھے تیرے نبی کی قسم، بس کر
اگر تو نے دو آیتیں اور پڑھ لی تو میرا جگر پھٹ جائے گا۔

" یہ تھا انگریز پر قرآن سننے کا اثر ۔“

 اللہ حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی قبر کو نور سے منور فرما آمین۔