*کیا میں قابلِ عزت ھوں؟* حصہ دوئم
تحریر:-عزیزخان ایڈووکیٹ لاہور
میرے سابقہ افسران بالا نے میری پچھلی تحریر دیکھی اور پڑھی اُنہیں یہ لگا کہ میں نے کسی خاص افسر کی ذات پر بات کی ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں تھی لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے ہاتھ میں کسی کی نوکری ، عزت، ذلت، پروموشن، اور بچوں کا مُستقبل ہے تو وہ بلکُل غلط ہیں
اس تحریر کو پڑھنے کے بعد میرے بارے میں انکوائری کرائی گی کہ 1982 کا کون Asi ہے جس نے ایسی گُستاخی کی ہے آخر کار مجھے ٹریس کر لیا گیا مجھے یہ بھی جتلایا گیا کہ میری پولیس میں بھرتی اِسی Psp کلاس کی مرہون منت تھی
میں بلکل تسلیم کرتا ہوں لیکن شاید اُن کو یاد نہیں کہ مارشل لا کے اُس دور میں کسی کی جُرت نہیں تھی کہ دھاندلی یا سفارش سے بھرتی کرتا ہر رینج کی سلیکشن ڈیپٹی مارشل لا ایڈمنیسٹیٹر خود دیکھتا تھا ورنہ میں اور میرے دوست جن کی کوئی سفارش نہیں تھی پولیس میں بھرتی نہ ہو سکتے؟
انٹرویو میں رات کو Dig صاحبان دوسری رینج میں جایا کرتے تھے تاکہ کوئی سفارش نہ مانیں
اور پھر ایسا کیا ہوا کہ انہیں تمام ایماندار افسران کے ہوتے ہوئے نواز شریف نے اپنے سیاستدانوں کے ذریعے بغیر کسی امتحان اور انٹرویو کے بھرتی کروائی جن میں کُچھ جرائم پیشہ افراد بھی تھے جس کی نشاندہی سابقہ آئی جی عباس خان نے اپنی رپورٹ میں کی تھی
مزا تو تب تھا کہ اُس وقت کے آئی جی اور ڈی آئی جیز ان بھرتیوں سے انکار کر دیتے یا پھر اُن کو نوکریوں سے نکال دیتے ؟
میری پوری زندگی اور سروس کا نچوڑ ہے کہ عزت ذلت زندگی موت پوسٹنگ ٹرانسفر صرف اللہ کے ھاتھ میں ہےجہاں آپ نے جانا ہے رہنا ہے کھانا ہے لکھ دیا گیا ہے اور ھم سب اُسی رب کی ذات کے مُحتاج ہیں
میں پہلے بھی اپنی ایک پوسٹ میں لکھ چُکا ہوں کہ میری تنقید کسی ایک شخص یا کسی آفسر کی ذات پر نہیں بلکہ اس بوسیدہ سسٹم پر ہے جس کا ہم شکار ہیں اور انگریز کے بنائے نظام کے غلام ھیں
ہمارے ایک ریٹائرڈ ڈی ایس پی دوست کے بیٹے کی شادی پر بہُت سے حاضر سروس اور ریٹائرڈ پولیس ملازمین دوستوں سے مُلاقات ہوئی جنہوں نے میری اس کاوش کو سراہا اور دل ہی دل میں نہیں بلکہ مُنہ پر تعریف کی کیونکہ اُن کو وہاں کوئی خطرہ نہ تھا ورنہ یہ تو سب دل ہی دل میں تعریف کرنے سے ہی ڈرتے ہیں حالانکہ یہ ان کے دل کی آواز ہے
میری آج کی تحریر کا مقصد ہماری عوام کو یہ بتلانا مقصود ھے کہ اُن کے ذہن میں جو پولیس کے خلاف موروثی نفرت ھے وہ غلط ھے میرے بہت سے دوست میری اس بات سے شاید اتفاق نہ کریں
کہ پولیس ملازمان بھی انسان ھیں اُن کی ضروریات ھیں ان ی فیملی لائف ہے بچے ہیں پر شاید اُنہیں روبوٹ سمجھا جاتا ہے جو صرف ظُلم کرتے ھےں یا گالیاں بکتے ھیں
سارے پولیس ملازمین ایسے ہرگز نہیں ہیں نہ ہی بُرے ہیں گھر سے دوری بچوں کی تعلیم کا فکر 24 گھنٹہ ڈیوٹی میڈیکل سہولتوں کا نہ ہونا افسران کی گالیاں اور بد تمہیزیاں بھی ان کی عوام سے زیادتی کا سبب ہو سکتی ہیں
اب اس بات کو تسلیم کیا جا رھا ھے کہ محکمہ پولیس کا بوسیدہ نظام ختم ھونا چاھیے تفتیش مقدمات اور فیلڈ میں تجربہ اور تعلیم کی مساوی اہمیت ہو صرف تعلیم کی بنیاد پہ css کرنے والی PSP کلاس عقلِ کُل نہیں کہ اُسے ایک ایم اے پاس انسپکٹر یا Dsp پر فوقیت دی جائے جن کا تجربہ اُن کی عمروں سے زیادہ ہوتا ہے
آپ لوگ اس بات پر غور کریں کہ مقدمات کی تفتیش صرف Asi ,Si,Inspectors ھی کرتے ھیں
اے ایس پی حضرات کا تجربہ بلکل نہیں ھوتا ایک سال کی ملازمت کے بعد وہ حلقہ افسر لگا دیے جاتے ھیں اور 30/30 سال پرانے تجربہ کار تفتیشی افسران اُن کے سامنے دست بدستہ کھڑے ھوتے ھیں اور ان کی جُرت نہیں کہ ان کی حُکم عدولی کر سکیں
پھر یہی اے ایس پی تین سال بعد ایس پی ھو کہ کسی ضلع میں سکیل 18 کے Dpo لگا دیے جاتے ھیں جبکہ Dpo سکیل 19 کا ھونا ضروری ھے
شہباز شریف نے جہاں پنجاب کو فتح کرنے کیلئے جہاں کئی تاریخی کام کیے وھاں یہ کام بھی کیا کہ سکیل 18 کے Dpo اور Dco اضلاع میں تعینات کر دیے تاکہ وہ احسان مند رہیں ، ڈرے رہیں اور بوقت ضرورت انہیں رگڑا بھی لگایا جا سکے
مُلک میں تبدیلی آئی مگر صرف چہرے بدلے پالیسیاں وہی ہیں پنجاب میں گریڈ 19 کے ایس ایس پی ہوتے ہوئے آج بھی ناتجربہ کار گریڈ 18 کے ایس پی بطور Dpo اور Dco تعینات ہیں جو ضلع چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے
جب تین چار سالہ نا تجربہ کار Dpo کسی ضلع میں تعینات ھوتا ھے تو وہ کیا حرکات کرتا ھے؟
یہ محکمہ پولیس کے ملازمان تو جانتے ھیں کاش آپ بھی جان پاتے کہ کروڑوں روپے کے فنڈز ان کے ( رحم کرم) پر ھوتے ھیں جنکا کوئی ایکسٹرنل آڈٹ نہیں ہوتا اور جو آڈٹ ھوتا ھے اُس کا بھی کوئی آڈٹ نہیں ہوتا ؟؟
محکمہ پولیس میں ملازمت کرنے والے یہ چھوٹے ملازمین جب 60 سال پورے کرنے کے بعد ریٹائر ھوتے ھیں تو ان کا اپنا ذاتی گھر تک نہیں ھوتا اور ان ملازمین کو ملنے والی رقم اتنی کم ھوتی ھے کہ اس سے نہ تو کوئی کاروبار کیا جا سکتا ہے نہ پلاٹ لے کر اپنا گھر بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنے بچوں کی شادیاں کر سکتے ہیں
محکمہ پولیس میں سزا دینے کا نظام بہُت تیز ھے پر یہ سزا صرف رینکرز ملازمان کے لیے ہے
میں نے اپنی 37 سالہ ملازمت میں اور بطور Dsp کبھی کسی Asp یا Psp افسر کو اپنے ساتھ نہ تو کسی اردلی روم میں پیش ھوتے دیکھا نہ اُنہیں کبھی سزا ملتے دیکھی اور نہ اُن کی کبھی پروموشن رُکی؟
پولیس ریفارمز کی باتیں کرنے وال 72 سال سے خاموش ہیں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے یہ سب جاگ جاتے ہیں کالی بھیڑوں کو نکالنے کی باتیں دعوے کیے جاتے ہیں
سفید بھیڑیے کالی بھیڑوں کی قُربانی کے بعد اپنے آقاوں کو مطمعن کرتے ہیں اور بار بار ایک ہی کہانی دُہرائی جاتی ہے
پالیسیاں بناتے وقت جو افسران فیلڈ میں کام کرتے ہیں اُن سے پوچھا تک نہیں جاتا اُن کو سُنا تو جائے کہ اُن کے کیا مسائل ہیں ؟
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں