دجال اور اس کا فتنہ اور پرسرار بزرگ کا واقعہ

 


    دجال اور اس کا فتنہ اور پرسرار بزرگ کا واقعہ




نبی آخرالزمانﷺنے فرمایا دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہوگا، دونوں پاؤں ٹیڑھے ہوں گے، جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی، رنگ سرخ یا گندمی ہوگا، سر کے بال حبشیوں کی طرح ہوں گے، ناک چونچ کی طرح ہوگی، بائیں آنکھ سے کانا ہوگا، دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہوگا، اس کے ماتھے پر ک ا ف ر لکھا ہو گا جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا۔ اس کی آنکھ سوئی ہوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا، شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اس کے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہوگا، ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا۔


دجال پکا جھوٹا اور اعلیٰ درجہ کا شعبدے باز ہوگا،اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہوں گی، زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گا، دجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے اور درختوں پر پھل آجائیں گے، کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماؤں اور باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟ لوگ اثبات میں جواب دیں گے، اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماؤں اور باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے، نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے،

اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بادلوں کی طرح رواں ہو گی، وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی، امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہرہ داری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا۔ اسلئے نامراد وذلیل ہو کر مدینہ منورہ کا رخ کرے گا۔ اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی، انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے، باہر نکلتے ہی دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا

آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اور خاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے، لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی، لٰہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال (نعوذ بااللہ) کی اجازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا ’’میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی‘‘۔ دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہو جائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا، درباری فوراً اس بزرگ کے دو ٹکڑے کر دیں گے،

دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کر دوں تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا، یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا،دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہٰی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آ گیا ہے کہ تو ہی دجال ملعون ہے،وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اس کی قوت سلب کر لی جائے گی




دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کیلئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی،اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت امام مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے،دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا، ایک دن ایک سال دوسرا دن ایک مہینہ اور تیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا، بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے۔حضرت امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی کیونکہ وہ اپنے مادی و افرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میں اپنی دھاک بٹھا چکا ہو گا۔


اسلئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل نظر آ رہی ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہوگا،حضرت امام مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گےتمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے،ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ امام مہدی دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کوارٹر ہو گ


حضرت امام مہدی ایک دن نماز پڑھانے کیلئے مصلے کی طرف بڑھیں گے تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا،نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کیلئے نکلیں گے، دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آگے بڑھ کر اس کو باب لد کے مقام پر قتل کر دیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر و حجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے


چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑیں گےپھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گےخنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔(مسلم، ابن ماجہ، ابودائود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد) اللّٰہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا ایمان سلامت رکھے۔


دجال کا مطلب ہے مکار و فریبی،نبی اقدسﷺ نے ہر جمعہ کے دن سورہ الکہف پڑھنے کی ترغیب دی ہے اور اس کا ایک فائدہ دجال کے فتنے سے حفاظت بھی بیان فرمائی،بڑا دجال تو ہے ہی لیکن یہ جو ہر روز ہمیں گمراہوں، عیار لوگوں، فریبیوں، دھوکے بازوں، دین فروشوں سے واسطہ پڑتا ہے ان کی بھلی شکلوں کو دیکھ کر، ان کی چرب زبانی سن کر، ان کی ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر انسان بہت متاثر و مرعوب ہوجاتا ہے،بہت سے لوگ پھسل بھی جاتے ہیں اور گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں ،


ان سے ایمان و جان کو بچانے کے لیے سورہ الکہف کی حفاظتی تدبیر سے بہتر کوئی صورت نہیں ہے، اس لیے ہر مسلمان کو جمعہ کے دن سورہ الکہف کی تلاوت کرنی چاہئے تاکہ اللہ کریم ہمارے ایمان، ہمارے مال، ہماری عزت و آبرو کو ان دجالوں کے فتنے سے محفوظ فرمائے ،ہر نماز میں التحیات کے آخر میں فتنہ دجال سے پناہ مانگنے کی دعا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی ہے اسے بھی مسلسل پڑھنا چاہئے ۔



‏ہیکل سلیمانی سے یہودیوں کا تعلق

      

          ‏[ہیکل سلیمانی سے یہودیوں کا تعلق]



آج کی پوسٹ تھوڑی لمبی لیکن کافی معلوماتی ہے۔


ہیکل سلیمانی درحقیقت ایک مسجد یا عبادت گاہ تھی۔ جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جنات سے تعمیر کروائی تھی تاکہ لوگ اس کی طرف منہ کرکے یا اس کے اندر عبادت کریں۔

ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے


تعمیر سے پہلے یہودیوں کے ھاں کسی بھی باقاعدہ ہیکل کا نہ کوئی وجود اور نہ اس کا کوئی تصور تھا۔ اس قوم کی بدوؤں والی خانہ بدوش زندگی تھی۔ان کا ہیکل یا معبد ایک خیمہ تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ رکھا ھوتا تھا جس کی جانب یہ رخ کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔

روایات کے مطابق یہ تابوت جس لکڑی سے تیار کیا گیا تھا اسے " شمشاد کہتے ہیں۔ اور اسے جنت سے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا۔ یہ تابوت نسل در نسل انبیا سے ھوتا ھوا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تک پہنچا تھا، اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا من و سلویٰ اور دیگر انبیا کی یادگاریں تھیں۔ یہودی اس تابوت کی برکت سے ھر مصیبت پریشانی کا حل لیا کرتے تھے مختلف اقوام کے ساتھ جنگوں کے دوران اس صندوق کو لشکر کے آگے رکھا کرتے اس کی برکت سے دشمن پر فتح پایا کرتے۔


جب حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت عطا ھوئی تو آپ نے اپنے لئے ایک باقاعدہ محل تعمیر کروایا۔ ایک دن ان کے ذہن میں خیال آیا کہ میں خود تو محل میں رہتا ھوں جبکہ میری قوم کا معبد آج بھی خیمے میں رکھا ھوتا ہے۔ یہ بائیبل کی روایات ہے،

جیسے بائیبل میں ہے

" بادشاہ نے کہا: ’میں تو دیودار کی شان دار لکڑی سے بنے ہوئے ایک محل میں رہتا ہوں، مگر خدا وند کا تابوت ایک خیمے میں پڑا ہوا ہے( 2۔سموئیل 4؛2)۔

چنانچہ آپ نے ہیکل کی تعمیر کا ارادہ کیا اور اس کے لئے ایک جگہ کا تعین کیا گیا۔ ماھرین نے آپ کو مشورہ دیا کہ اس ہیکل کی تعمیر آپ کے دور میں ناممکن ہے آپ اس کا ذمہ اپنے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کو دے دیجئیے۔ چنانچہ حضرت سلیمان نے (970 ق م ۔ 930 ق م ) نے اپنے دور حکومت کے چوتھے سال میں اس کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ آج اس کی بناوٹ اور مضبوطی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تعمیر انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی اتنے بھاری اور بڑے پتھروں کو ان جنات کی طاقت سے چنا گیا تھا جن پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تھی۔ ہیکل کی پہلی تعمیر کے دوران ہی حضرت سلیمان علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن جنات کو پتہ نہ چل سکا اور انہوں نے ہیکل کی تعمیر مکمل کردی۔ یہ واقعہ آپ نے پہلے بھی پڑھا ہوگا۔ کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی روح اللہ نے دوران عبادت ہی قبض کرلی لیکن اس کی ترکیب اس طرح بنی کے آپ ایک لکڑی پر سر اور کمر رکھ کر عبادت میں مصروف ہوگئے اور اس لکڑی کے سہارے سے یوں لگتا تھا کہ آپ اب بھی عبادت ہی کررہے ہیں۔ جبکہ آپ کا انتقال ہوچکا تھا۔



بہرحال یہ ہیکل، معبد یا مسجد بہت عالیشان اور وسیع و عریض تعمیر کی گئی تھی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد اس میں تین حصے کردئیے گئے تھے بیرونی حصے میں عام لوگ عبادت کیا کرتے اس سے اگلے حصے میں علما جو کہ انبیا کی اولاد میں سے ھوتے ان کی عبادت کی جگہ تھی اس سے اگلے حصے میں جسے انتہائی مقدس سمجھا جاتا تھا اس میں تابوت سکینہ رکھا گیا تھا۔ اس حصے میں کسی کو بھی داخل ھونے کی اجازت نہیں تھی۔ سوائے سب سے بڑے عالم پیش امام کے۔

وقت گزرتا رھا اس دوران بنی اسرائیل میں پیغمبر معبوث ھوتے رہے یہ قوم بد سے بدتر ھوتی رھی ، یہ کسی بھی طرح اپنے گناھوں سے توبہ تائب ھونے یا ان کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تھے یہ ایک جانب عبادتیں کیا کرتے دوسری جانب اللہ کے احکام کی صریح خلاف ورزی بھی کرتے رہے۔ ان کی اس دوغلی روش سے اللہ پاک ناراض ھوگیا۔ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیا بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی،



ان کے پاس ایک بہت بڑی تعداد میں انبیا بھی بھیجے گئے لیکن یہ قوم سدھرنے کو تیار نہ تھی حتی کہ ان کی شکلیں تبدیل کرکے بندر اور سؤر تک بنائی گئیں لیکن یہ گناھوں سے باز نہ آئے تب اللہ نے ان پر لعنت کر دی۔ 586 ق۔ م میں بخت نصر نے ان کے ملک پر حملہ کیا ان کا ہیکل مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا، ہیکل میں سے تابوت سکینہ نکالا، چھ لاکھ کے قریب یہودیوں کو قتل کیا تقریبا" دو لاکھ یہودیوں کو قید کیا اور اپنے ساتھ بابل (عراق) لے گیا شہر سے باھر یہودی غلاموں کی ایک بستی تعمیر کی جس کا نام تل ابیب رکھا گیا۔ 70 سال تک ہیکل صفحہ ھستی سے مٹا رھا۔ دوسری طرف بخت نصر نے تابوت سکینہ کی شدید بے حرمتی کی اور اسی کہیں پھینک دیا کہا جاتا ہے اس حرکت کا عذاب اسے اس کے ملک کو اس طرح ملا کہ سن 539 ق۔ م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل ( عراق) پر حملہ کر دیا اور بابل کے ولی عہد کو شکست فاش دے کر بابلی سلطنت کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ سائرس ایک نرم دل اور انصاف پسند حکمران تھا اس نے تل ابیب کے تمام قیدیوں کو آزاد کرکے ان کو واپس یروشلم جانے کی اجازت دے دی۔ اور ساتھ میں ان کو ہیکل کی نئے سرے سے تعمیر کی بھی اجازت دے دی ساتھ میں اس کی تعمیر کے لئے ھر طرح کی مدد فراھم کرنے کا وعدہ بھی کر لیا۔

چنانچہ ہیکل کی(دوسری) تعمیر 537 ق م میں شروع ہوئی۔لیکن تعمیر کا کام سر انجام دینے والوں کو اپنے ہم وطن دشمنوں کی اتنی زیادہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ تعمیراتی کام جلد ہی عملی طور پر بند ہو گیااور دارا (Darius) اوّل کے دورِ حکومت تک مداخلت ہی کا شکار رہا۔ اُس کی حکمرانی کے دوسرے سال میں حضرت زکریا علیہ السلام نے وہاں کے گورنر زروبابل اور سردار کاہن یوشواہ (یوشع) کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ہیکل کی تعمیر ثانی کی دوبارہ کوشش کریں۔ انھوں نے مثبت ردِ عمل کا اظہار کیااور پوری قوم کی پر جوش تائیداور ایرانی حکام اور بذات خودبادشاہ کی اشیرباد سے ہیکلِ ثانی اپنی اضافی تعمیرات سمیت ساڑھے چار سال کے عرصے میں 520۔ 515 ق م پایۂ تکمیل کو پہنچا۔


لیکن اس بار اس میں تابوت سکینہ نہیں مل سکا ۔ اس کے بارے آج تک معلوم نہیں ھوسکا کہ بخت نصر نے اس کا کیا کیا۔



کچھ لوگوں کا کہنا ھے کہ اس مقدس صندوق کی مزید توھین سے بچانے کے لئے اسے اللہ پاک کے حکم سے کسی محفوظ مقام پر معجزانہ طور پر چھپا دیا گیا جس کا کسی انسان کو علم نہیں۔لیکن یہودی اس کی تلاش میں پورے کرہ ارض کو کھود ڈالنا چاھتے ھیں۔

ایک اور دلچسپ بات عام طور پر تاریخ دان ہیکل کی دو دفعہ تعمیر اور دو دفعہ تباھی کا ذکر کرتے ھیں۔ تاریخ کے مطالعے سے ایک بات میرے سامنے آئی کہ ایسا نہیں ، اس ہیکل کو تین بار تعمیر کیا گیا لیکن اس کے ساتھ بھی ایک دلچسپ کہانی وجود میں آئی۔ ھیروڈس بادشاہ جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے چند سال پہلے کا بادشاہ ہے اس نے جب اس کی بہتر طریقے سے تعمیر کی نیت کی تو یہودیوں کے دل میں ایک خوف پیدا ھوا کہ اگر اسے نئے سرے سے تعمیر کے لئے گرایا گیا تو دوبارہ تعمیر نہیں ھوگا۔ ھیروڈس نے ان کو بہلانے کے لئے کہا کہ وہ صرف اس کی مرمت کرانا چاھتا ھے اسے گرانا نہیں چاھتا۔ چنانچہ سن 19 ق م میں اس نے ہیکل کے ایک طرف کے حصے کو گرا کر اسے تبدیلی کے ساتھ اور کچھ وسیع کرکے تعمیر کروایا یہ طریقہ کامیاب رھا


اور یوں یہودیوں کی عبادت میں خلل ڈالے بغیر تھوڑا تھوڑا کرکے ہیکل گرایا جاتا اور اس کی جگہ نیا اور پہلے سے مختلف ہیکل وجود میں آتا رھا۔ یہ کام اٹھارہ ماہ میں مکمل ھوا اور یوں تیسری بار ھیروڈس کے ذریعے ایک نیا ہیکل وجود میں آ گیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ھوا، اللہ کے اس رسول پر ایک بار پھر یہودیوں نے حسب معمول مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے۔ دراصل وہ اپنے مسیحا کے منتظر تھے جو دوبارہ آ کر ان کو پہلے جیسی شان و شوکت عطا کرتا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مصلوب ھونے کا واقعہ پیش آیا ، آپ کے مصلوب ھونے کے 70 سال بعد ایک بار پھر یہودیوں پر اللہ کا عذاب نازل ھوا۔ اس بار اس عذاب کا نام ٹائٹس تھا۔ یہ رومی جرنیل، بابل کے بادشاہ بخت نصر سے بھی زیادہ ظالم ثابت ھوا۔ اس نے ایک دن میں لاکھوں یہودیوں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اس نے ھیروڈس کے بنائے ھوئے عظیم الشان ہیکل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اور یہودیوں کو ھمیشہ کے لئے یروشلم سے نکال باھر کیا۔

یہودی پوری دنیا میں بکھر کر اور رسوا ھوکر رہ گئے۔ کم و بیش اٹھارہ انیس سو سال تک بھٹکنے کے بعد برطانیہ نے جب فلسطین پر قبضہ کیا تو ساتھ ہی ایک ناجائز بچےاسرائیل کو فلسطین میں جنم دے دیا۔ اور یوں صدیوں سے دھکے کھانے والی قوم کو ایک بار پھر اس ملک اسرائیل میں اکٹھے ھونے رھنے کی اجازت مل گئی۔ لیکن یہ قوم اپنی ھزاروں سال پرانی گندی فطرت سے باز نہ آئی ۔ یہ برطانیہ کے جنم دئیے ھوئے اسرائیل تک محدود نہ رھے ایک بار پھر ھمسایہ ممالک کے لئے اپنی فطرت سے مجبور ھوکر مصیبت بننے لگے۔ 5 جون 1967 کو اس نے شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ 1968 میں اردن کے مغربی کنارے پر قابض ھوگئے۔ اسی سال مصر کے علاقے پر بھی کنٹرول کر لیا۔ آج اس قوم کی شرارتیں اور پھرتیاں دیکھ کر اندازہ ھوتا ہے کہ یہ آج سے دو تین ھزار سال پہلے بھی کس قدر سازشی رہے ہوں گے۔ جس کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کر دی تھی۔ مسلمان ممالک کی بے غیرتی اور بزدلی کی وجہ سے اب اس نے پوری دنیا کے مسلمان ممالک میں آگ لگا کر رکھ دی ہے۔

اب ان کا اگلا مشن جلد ازجلد اسی ہیکل کی تعمیر ھے اور اس ہیکل میں تخت داؤد اور تابوت سکینہ کو دوبارہ رکھنا ہے تاکہ


رکھنا ہے تاکہ ایک بار پھر یہ اپنے مسایا (یہودی زبان کا لفظ ) مسیحا کے آنے پر پوری دنیا پر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ وہ یہ کام انتہائی تیزرفتاری سے کر رہے ھیں۔ اس ہیکل کی تعمیر کے نتیجے میں یہ پوری دنیا جنگ کی آگ میں لپٹ جائے گی۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے دارالخلافہ کی تبدیلی کا اعلان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ لیکن مسلمان اقوام کو کوئی پرواہ نہیں۔ 



آپ اندازہ کیجئے یہودیوں کو جس بستی تل ابیب میں بخت نصر نے قیدی بنا کر رکھا تھا وہ اس کو آج تک نہیں بھولے ، انہوں نے اسرائیل بنانے کے بعد اپنے ایک شہر کا نام تل ابیب رکھ لیا۔ جبکہ ھم مسلمان اس مسجد اقصی کو بھی بھول چکے ھیں جہاں ھمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا سفر شروع کیا تھا۔ یہودی آج تک بار بار گرائے گئے ہیکل کو نہیں بھولے حتی کہ اس میں رکھے تابوت سکینہ کی تلاش میں پوری دنیا کو کھود دینا چاہتے ہیں جبکہ ہم کو یہ بھی یاد نہیں کہ عراق میں کتنے انبیا اولیاء کے مزارات پچھلے کچھ عرصہ میں بم لگا کر شہید کر دئیے گئے ہیں۔ وہ بھی اس تنظیم داعش نے کئے ہیں جن کے تانتے بانتے اسرائیل سے ملتے ہیں۔ جن کے لیڈر ابوبکر بغدادی کا بیان تھا خدا ہمیں اسرائیل کے خلاف جہاد کا حکم نہیں دیتا۔ اس تنظیم کی ساری توجہ مسلمانوں کو مارنے میں ہی لگی رہی اور اب تک ہے۔ کبھی مکے اور مدینے پر حملے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ اور کبھی انتشار پھیلانے کےلئے مسلمان ملکوں میں بم دھماکے کرتے ہیں۔






دی لیجنڈ آف ٹومیریس، ازبکستان

 

                           Tomyris 


                 دی لیجنڈ آف ٹومیریس، ازبکستان

                              Tomyris


Tomyris کی علامات - Massagetae کی ملکہ

قدیم زمانے میں یوریشیائی میدانوں کا وسیع و عریض علاقہ Scythian رینج کے افسانوی جنگجو خانہ بدوشوں کے کنٹرول میں تھا: ساکا، Massagetae، Sarmatians اور Scythians۔ آٹھویں صدی سے لے کر چوتھی صدی تک ہزاروں سالوں سے، وہ مشرقی اور یورپ کی تہذیبوں کو خوفزدہ کر رہے تھے: یونان، روم، مصر اور فارس۔ Saka اور Massagetae مشرقی قبائل تھے جو وسطی ایشیا میں رہتے تھے۔


Achaemenid Empire جسے اکثر پہلی فارسی سلطنت کہا جاتا ہے چھٹی صدی قبل مسیح میں ابھرا۔

فارس کے بادشاہ سائرس دوم نے میسوپوٹیمیا کے ممالک کو متحد کیا اور فوجی توسیع شروع کی۔ اس نے مصر کی وسیع فتح کا منصوبہ بنایا۔ تاہم، سائرس نے دانشمندی سے اندازہ لگایا کہ فرعون اماسیس کی پالیسی سے مضبوط ہونے والی اتنی بڑی ریاست کے خلاف جنگ مشکل ہو گی۔ سائرس نے مصر کے لیے مہم کو ملتوی کرنے اور سلطنت کی مشرقی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا، جہاں پھیلے ہوئے میدانوں میں خانہ بدوش ساکا اور ماسگیٹی آباد تھے۔ میدانی قبائل کے پاس ایک متاثر کن فوجی طاقت تھی، وہ اپنی نقل و حرکت میں غیر متوقع تھے اور اس وجہ سے سال کے کسی بھی وقت فارسیوں کے زیر قبضہ وسطی ایشیائی علاقے پر حملہ کر سکتے تھے۔ 530 قبل مسیح میں سائرس دی گریٹ نے اپنی بڑی فوج کی سربراہی کی اور مشرق کی طرف پیش قدمی کی۔


اس وقت، Massagetae ملکہ Tomyris کی طرف سے حکومت کیا گیا تھا. وہ Spargapises کی بیٹی تھی - تمام Massagetae قبائل کی رہنما۔ رہنما کی موت کے بعد، تومیرس کو اقتدار ان کے اکلوتے بچے کے طور پر وراثت میں ملا، لیکن بہت سے قبائلی رہنما جو اس حقیقت سے مطمئن نہیں تھے کہ ان کی رہنمائی ایک عورت نے کی تھی، اس کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اپنی پوری جوانی کے دوران، Tomyris Massagetae کی قیادت کے حق کے لیے لڑتی رہی اور اس نے اپنی ہمت، بہادری اور اپنے لوگوں کے لیے لگن سے ثابت کیا۔


اس بارے میں ایک کہانی ہے کہ کس طرح ٹومیرس نے خود سے شوہر کا انتخاب کیا۔ ساکا کے دوسرے قبائل کے ساتھ جنگ ​​کے دوران، سپارگاپیسس نے مدد کے لیے اپنے اتحادی کاواد، ساکا تیگراکھاؤدا قبیلے کے سربراہ کی طرف رجوع کیا۔ اس وقت کاواد اپنی سرحدوں پر لڑ رہا تھا اس لیے اس نے اپنی بجائے اپنے پسندیدہ بیٹے رستم کو بھیجا۔ رستم جب Massagetae کے ڈیرے پر پہنچا تو وہاں بطیروں کے درمیان مقابلہ ہو رہا تھا۔ اس مقابلے کا انعام لیڈر کی بیٹی ٹومیرس کے ساتھ شادی تھا۔ جو گھوڑوں کے مقابلے میں ٹومیرس کو پکڑنے میں کامیاب ہوا وہ اس کا شوہر ہوگا۔ ٹومیرس اپنے قبیلے کے بہترین سواروں میں سے ایک تھی، اس لیے صرف بہترین جنگجو ہی اسے پیچھے چھوڑ سکتے تھے۔ رستم نے ٹورنامنٹ جیتا۔


جب ٹومیرس کو سائرس II کے حملے کے بارے میں معلوم ہوا تو اس نے Massagetae کو میدان چھوڑنے کا حکم دیا۔ سائرس نے اپنی باری میں، Massagetae پر اقتدار سنبھالنے کے لیے فوجی چالاکی کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک ایلچی ملکہ ٹومیرس کو خط کے ساتھ بھیجا تھا۔ سائرس نے اپنے پیغام میں اس کی خوبصورتی اور ذہانت کی تعریف کی اور اسے تجویز کیا کہ وہ اپنے لوگوں کو خونی جنگ سے بچائے گی۔ لیکن عقلمند تومیرس نے محسوس کیا کہ فارس کے حکمران کو صرف اس کی بادشاہی کی ضرورت ہے اور اس نے انکار کردیا۔


ایسا لگتا تھا کہ فارسیوں کے لیے فوجی مہم کامیابی سے شروع ہو رہی ہے۔ خانہ بدوشوں کی حفاظت کرتے ہوئے میدانوں کی طرف پیچھے ہٹتے ہوئے، Massagetae نے شدید جھڑپوں میں ملوث نہ ہونے کی کوشش کی، جارحانہ کارروائی کرنے والی فارسی فوج سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہ دشمن کو میدان میں آمادہ کرنے کا حربہ تھا۔ جیسا کہ عام طور پر جھڑپوں کے بعد، Massagetae نے اپنے تیز رفتار گھوڑوں پر کامیابی سے تعاقب کرنے والے کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس طرح، فارسی Jaxartes آئے. یہاں، سائرس نے پھر ایک چال استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک کیمپ لگانے کا حکم دیا اور تمام زخمی اور بیمار سپاہیوں کو زہر دے کر دریا کے قریب اپنی اچھی فوجوں کے ساتھ گھات لگائے۔ Tomyris Spargapises کے بیٹے کی قیادت میں Massagetae نے رات کو کیمپ پر حملہ کیا، لیکن کوئی مزاحمت نہیں ملی اور فیصلہ کیا کہ فارسی فرار ہو گئے۔ فتح کا جشن مناتے ہوئے، انہوں نے فارسیوں کی چھوڑی ہوئی زہریلی شراب پی۔ جب Massagetae اسکواڈ کا بیشتر حصہ سو گیا تو فارسیوں نے تقریباً پوری دستہ پر حملہ کر کے قتل عام کر دیا۔ ٹومیرس کا بیٹا پکڑا گیا۔


جب ملکہ ٹومیرس نے سنا کہ اس کے بیٹے اور فوج کے ساتھ کیا ہوا ہے، تو اس نے سائرس کے پاس اپنے بیٹے کی رہائی کا مطالبہ کرنے کے لیے ایک ہیرالڈ بھیجا، کیونکہ وہ "طاقت کی جنگ میں نہیں دھوکہ دہی سے" پکڑا گیا تھا۔ Massagetae کی ملکہ نے فارس کے حکمران کو سختی سے تنبیہ کی: "انکار کرو، اور میں سورج کی قسم کھاتا ہوں، Massagetae کے خود مختار رب، آپ جیسے خونخوار ہیں، میں آپ کو خون سے بھر دوں گا۔" سائرس نے انکار کر دیا اور سپارگاپیسس نے خود کشی کر لی۔ سائرس کے ذریعہ Tomyris کو جوڑ توڑ کے لیے استعمال کیا جائے۔


جیسے ہی ٹومیرس کو اپنے بیٹے کی موت کا علم ہوا، اس نے فارسیوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میدان میں ایک جنگ تھی جس میں Massagetae نے اپنی تمام طاقت اور غصے کو فارسی فوج پر اتار دیا۔ اس لڑائی میں سائرس مارا گیا۔ ٹومیرس نے انسانی خون سے بھری جلد کو بھرنے کا حکم دیا، اس نے سائرس کا سر گور میں ڈبو دیا، یہ کہتے ہوئے کہ اس نے کارپوریشن کی توہین کی۔

یأجوج و مأجوج کون ہیں؟

 یأجوج و مأجوج کون ہیں؟






 

یأجوج و مأجوج دو قبائل کے نام ہیں جو ایک ساتھ رہتی ہیں۔


ان کا نسب:


یہ دونو


ں قبائل حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ساتھ ہی حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے بھی تعلق رکھتے ہیں، یعنی یہ عام انسان ہیں۔

یہ نہ تو جنات ہیں، نہ خلائی مخلوق اور نہ ہی کوئی افسانوی مخلوق، جیسا کہ بعض کہانیاں بیان کرتی ہیں۔


ان کا ماضی:


یأجوج و مأجوج طویل عرصے تک باقی انسانوں سے الگ تھلگ رہے، جس کی وجہ سے وہ تہذیب و تمدن میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گئے۔

ذوالقرنین کے زمانے میں یہ لوگ دو پہاڑوں کے درمیان رہتے تھے اور لوگوں کو لوٹ مار، قتل و غارت اور فساد سے تنگ کرتے تھے۔

ایک مومن بادشاہ جو زمین پر سفر کرتا اور لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔

- اس کے پاس ایک بہت بڑی اور طاقتور فوج تھی۔

- وہ اپنے فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کرتا تھا۔

- اللہ نے اسے حکمت، علم، قوت، اور ایمان عطا کیا تھا۔

ذو القرنین اپنی عظیم فوج کے ساتھ زمین کے مشرق و مغرب کا سفر کر رہا تھا، لوگوں کو رب العالمین کی طرف بلاتا تھا۔

یہاں تک کہ وہ ایک ایسی قوم سے ملا جو دو پہاڑوں کے قریب رہتے تھے۔

لیکن وہ ان کی زبان نہیں سمجھتا تھا، اس نے ان کے درمیان ایک مترجم رکھا...

ابن کثیر اپنے تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس نے ان کے درمیان درجنوں مترجمین رکھے تاکہ وہ سمجھ سکے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔

وہ لوگ ذو القرنین سے کہنے لگے: اے ذو القرنین، ہمیں یأجوج و مأجوج سے بچاؤ۔

ذو القرنین نے پوچھا: یأجوج و مأجوج کون ہیں؟

انہوں نے جواب دیا: وہ مفسد ہیں، کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے برباد کر دیتے ہیں، ہمارے کھیتوں اور نسلوں کو تباہ کرتے ہیں۔

ذوالقرنین نے اللہ کے حکم سے ان کے لیے ایک مضبوط دیوار بنا دی تاکہ یہ باقی دنیا سے الگ ہو جائیں۔


                                                        ان کی کثرت:

یأجوج و مأجوج کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ قیامت کے دن، اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے:

"اے آدم! اپنی اولاد میں سے جہنم کے لیے افراد نکالو"

آدم علیہ السلام پوچھیں گے:

"کتنے؟"

اللہ فرمائیں گے:

"ہر ہزار میں سے 999 جہنم میں اور 1 جنت میں"

یہ سن کر صحابہ کرام خوفزدہ ہو گئے اور پوچھا:

"یا رسول اللہ! وہ ایک کون ہوگا؟"

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"وہ ایک تم میں سے ہوگا، اور 999 یأجوج و مأجوج میں سے ہوں گے۔"


یأجوج و مأجوج کے کفریہ عقائد:


یأجوج و مأجوج کا خروج قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ہے۔

جب وہ دیوار سے باہر نکلیں گے تو زمین پر فساد مچائیں گے۔

ان کی کفر کی شدت کا یہ حال ہوگا کہ وہ آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے، اور جب وہ تیر خون سے واپس آئیں گے تو وہ دعویٰ کریں گے:

"ہم نے زمین والوں کو زیر کر لیا اور آسمان والوں پر بھی غالب آ گئے۔"

ان کا انجام:


یأجوج و مأجوج کو اللہ تعالیٰ ایک خاص کیڑے (النغف) کے ذریعے ہلاک کرے گا، جو ان کی گردنوں پر حملہ کرے گا۔

ان کی لاشیں زمین کو بھر دیں گی اور بدبو پھیل جائے گی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ سے دعا کریں گے، تو اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان لاشوں کو اٹھا کر لے جائیں گے اور زمین کو پاک کرے گا۔


ان کا موجودہ مقام:


یأجوج و مأجوج کہاں ہیں؟ یہ ایک ایسا راز ہے جو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

ان کا مقام یا تو زمین کے نیچے کسی گہرائی میں ہے یا کسی ایسی جگہ پر جہاں انسانوں کی رسائی ممکن نہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ روزانہ دیوار کو کھودتے ہیں، اور جب سورج کی روشنی قریب آتی ہے تو ان کا سردار کہتا ہے:

"کل دوبارہ آئیں گے، ان شاء اللہ۔"

یہی "ان شاء اللہ" کہنا ان کے آخری دن میں فیصلہ کن ہوگا جب وہ دیوار کو مکمل کھود کر باہر نکلیں گے۔اور یہ دنیا میں فساد برپا کریں گے۔


مولانا حافظ الرحمن نے اپنی کتاب قصص القرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی ؑ اور تمام مسلمان مل کر اللہ سے دعا کریں گے ۔ یہ ان سے جان چھڑا دیں۔ 

پھر ا للہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایسا کیڑ اپیدا کرے گا جو ان کی موت کا باعث بنے گا۔ پوری زمین ان کی لاشوں سے بھر جائے گی ۔ پھر اللہ کے حکم سے بارش برسے گی جو زمین کو ان تمام لاشوں سے پاک کردے گی۔

 یاجوج ماجوج کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی ؑ پھر خروج دجال کے بعد ہوگا۔

اس وقت حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوکر دجال کو قتل کرچکیں ہوں گے۔ 

ان کے نکلنے کی ایک علامت بحریہ طبریہ کے پانی کا تیزی سے کم ہونا بیان کیا جاتا ہے، جس کا حدیث مبارکہ میں بھی ذکر ہے ۔ اور یہی وہ وقت ہو گا جب قیامت قریب ہو گی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارا خاتمہ ایمان پر کرے اور ہمیں اپنی پناہ میں رکھے آمین۔ 


ہماری ذمہ داری:


یأجوج و مأجوج کے بارے میں ایمان رکھنا ایمان بالغیب کا حصہ ہے۔

اللہ نے ان کا ذکر ہمیں اس لیے کیا تاکہ ہم جان سکیں کہ آزمائشوں سے بچنے کے لیے ہمیں سدی بندش کی ضرورت ہے۔

اپنے اور گناہوں کے درمیان دیواریں کھڑی کریں، چاہے وہ مباح (جائز) چیزیں ہی کیوں نہ ہوں، تاکہ آپ بڑی آزمائشوں سے محفوظ رہ سکیں۔


جنت ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ کی رضا کے لیے ہر آزمائش کا سامنا کرتے ہیں۔

"جو اللہ کے لیے کسی چیز کو ترک کرتا ہے، اللہ اسے بہتر سے نوازتا ہے۔"


اللہ_ہمیں_محفوظ_رکھے۔