خطاط الحرام-مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں خطاطی کرنے کی سعادت حاصل والے پہلے پاکستانی

 خطاط الحرام-               مسجد نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم میں خطاطی کرنے کی سعادت حاصل والے پہلے پاکستانی  




دروازے پر زور زور سے دستک ہوئی، بوڑھے شخص ن


 دروازہ کھولا تو ہمسائے اور اہل محلہ سارے اکٹھے تھے، تیور تو غصے والے تھے جنہیں دیکھ کر گھر سے برآمد ہونے والے بزرگ تھورا سا پریشان ہوئے، اور پوچھا کیا بات ہے سب خیریت ہے نا؟

خیریت کہاں ہے بھائی تمھارا لڑکا آئے روز ہمارے گھر کی

دیواروں پر کوئلے سے پتا نہیں کیا نقش و نگار بناتا رہتا ہے، ساری دیواریں اس نے کالی کررکھی ہیں، تم اپنے لاڈلے کو منع کیوں نہیں کرتے؟اسے سمجھاؤ ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔"


بڑے میاں نے وقتی طور پر اہل محلہ کو سمجھا بجھا کر بھیج تو دیا، لیکن وہ اس شکایت سے قدرے نالاں بھی تھے، بیٹے کو

سمجھایا " یار باز آجا کیوں تو لوگوں کو تنگ کرتا ہے، اپنی پڑھائی پر دھیان دے اور آئندہ شکایت کا موقع نہ دینا" بیٹے نے سر جھکا کر سن تو لیا، لیکن وہ باز رہنے والا کہاں تھا۔ یہ آڑھی ترچھی لکیریں تو اس کا شوق تھا اور شوق سے لاتعلقی کون اختیار کرسکتا ہے۔


پھر اس لڑکے نے باپ کا مان

رکھتے ہوئے دیواروں کو کالا کرنا ترک تو کردیا لیکن دیواروں کے علاوہ جو بھی خالی جگہ ملتی وہاں وہ چاک یا کوئلے سے کچھ نہ کچھ بناتا رہتا، یوں یہ شوق پروان چڑھتا رہا، اسکول میں اساتذہ کی غیر موجودگی میں تختہ سیاہ پر چاک کی مدد سے وہ اپنے شوق کی تکمیل کرتا رہتا، کبھی ڈانٹ اور کبھی

‏حوصلہ افزائی دونوں برابر ملتے رہے. وقت گزرتا رہا، اسکول میں منعقدہ خطاطی اور خوش نویسی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کردیا، جو بھی لکھا ہوا، یا بنا ہوا نمونہ دیکھتا اسے ہو بہو چاک کی مدد سے بنا لیتا تھا

خوش نویسی کے قواعد یا خطوں کی پہچان تو اسے بالکل بھی نہیں تھی لیکن جیسا بھی

مشکل سے مشکل خط ہوتا وہ اسے کاغذ پر اتار لیتا، کوئی پوچھتا کہ یہ کون سا خط ہے یا کون سا اسٹائل ہے تو وہ بتا نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے پاس باقاعدہ تعلیم تو نہیں تھی نہ ہی پہچان تھی۔ کلاس میں سب سے پہلے آتا، چاک سے تختہ سیاہ پر اپنی مشق کرتا رہتا، باقی ہم جماعتوں اور اساتذہ کے

‏آنے سے پہلے وہ ٹھیک ٹھاک مشق کرلیتا اور اگر کبھی کبھار کوئی استاد دیکھ لیتا تو حیران رہ جاتا کہ نو عمر اور نو آموز بچے کا اتنا عمدہ خوش خط۔ آہستہ آہستہ اس کی مشق میں پختگی تو آگئی لیکن باقاعدہ راہنمائی سے محروم ہی رہا، اسکول میں کوئی خطاطی کا استاد نہیں تھا اور آرٹ یا ڈرائنگ

کا استاد اسے تھوڑا بہت سکھا تو دیتا تھا لیکن وہ لڑکا ان استادوں سے زیادہ بہتر لکھ لیتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے مقابلے جیتتا رہا، محلے میں بھی بینر اور اشتہار لکھنے والے کی حیثیت سے پہچان بنوا لی۔ اسی دوران میٹرک کرلی اور آگے تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوگیا تو اسکول جانا چھوڑ دیا۔

برش اور رنگ لیتا اور گلیوں محلوں میں نکل جاتا لوگوں کی دکانوں پر نام لکھتا، بینر لکھتا اور چند پیسے کماتا، اس کام سے اسے تسکین نہیں مل رہی تھی وہ اس کام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا چاہتا تھا لیکن اسے کوئی راہ نہیں مل رہی تھی۔ اسکول جب چھوڑ دیا تو وقت کی فراوانی بھی ہوگئی اور

کام میں روانی بھی ہوگئی۔ ایک دن اسے کہیں سے ایک کتاب مل گئی جس کا نام تھا، خوشخطی سیکھیں۔ اس کتاب میں اردو اور عربی کے خطوں کے متعلق معلومات تھیں جیسے برش، قلم اور رنگوں کی بنیادی معلومات۔ اس نے وہ کتاب حفظ کرلی اور خطوں کی شکلیں یاد کرکے ان کی مشق شروع کردی۔ ایک دن وہ بڑی

‏کتابوں کی دوکان میں گیا اور وہاں سے اپنے کام کے متعلق کسی کتاب کا پوچھا، اسے کوئی خاص کتاب تو نہ ملی مگر عربی رسم الخط کے متعلق اسے ایک چھوٹا سا کتابچہ مل گیا اس نے وہی خرید لیا۔ اب عربی تو وہ پڑھ نہیں سکتا تھا لیکن عربی خطوں کی شکلیں اسے پتا چل گئیں، چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے

‏وہ بڑی کمپنیوں اور اداروں کے کام کرنے لگا۔


ایک دفعہ کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر وہ یونہی تاج کمپنی کا سائن بورڈ لکھنے میں مصروف تھا کہ ایک بڑی گاڑی اس بورڈ کے نیچے آکر رک گئی اور گاڑی میں بیٹھے شخص نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا۔ وہ نیچے آیا تو دیکھا اس سے مخاطب ایک عربی شخص

‏ہے اور عربی زبان سے تو وہ ناواقف تھا، اس بڑی گاڑی کے پیچھے ایک چھوٹی گاڑی بھی آکر رکی اس میں عربی شخص کے جاننے والے پاکستانی افراد تھے۔ وہ نیچے اترے اور اس لڑکے سے کہنے لگے کہ شیخ چاہتا ہے کہ تم اس کے ساتھ سعودی عرب چلو اور وہاں جاکر اس کے لیے خطاطی کا کام کرو۔ لڑکا کہنے لگا

مجھے تو عربی بولنا اور لکھنا آتی ہی نہیں میں کیسے یہ کام کروں گا، تو اس عربی شخص نے بتایا کہ تم جس خط میں یہ بینر لکھ رہے ہو یہ عرب کا مشہور خط ہے اور اسے ہر کوئی لکھ بھی نہیں سکتا۔ تم تو اسے کمال مہارت سے لکھ رہے ہو اور کہتے ہو میں جانتا بھی نہیں۔

وہ عربی سعودی سفیر کا دوست

تھا اور پاکستان سے ہنر مند افراد کو لینے آیا تھا، اسے پاکستانی خطاط لڑکے کا کام پسند آگیا اور اسے ساتھ چلنے کا کہا۔ یوں گھر سے اجازت لے کر اس نے پاسپورٹ بنوا کر شیخ کے حوالے کیا اور چند دنوں بعد وہ سعودی شہر ریاض میں بیٹھا بینر لکھ رہا تھا۔ جب کام کرتے ہوئے کافی سال گزر گئے تو


‏سعودیہ میں رہنے سے ایک تو اس نے عربی زبان میں مہارت حاصل کرلی دوسرا تمام عربی خط اور رسم الخط میں وہ تقریباً کمال کے مدرجے تک جا پہنچا

اس کا کفیل اچھا آدمی تھااور اس پاکستانی خطاط کی بے پناہ عزت بھی کرتا تھا،وہ اپنے کفیل سےاجازت لےکر کئی بار عمرہ اور زیارتیں وغیرہ بھی کر آیا

ایک دفعہ مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر نماز ادا کرتے ہوئے اس کے دل میں خواہش نے جنم لیا کہ کاش مجھے موقع ملے اور مسجد نبویﷺ کے اندر اپنے ہاتھ سے ایک تختی پر ایسی خطاطی کروں کہ دنیا حیران رہ جائے. یہ خواہش لے کر وہ وہاں سے ریاض آگیا، کام کاج کرتا رہا، وقت گزرتا رہا لیکن

خواہش برابر پروان چڑھتی رہی۔ایک بار اس نے کہیں سے سنا کہ مدینہ منورہ میں اعلان ہوا کہ دنیا بھر سے خطاط حضرات کو دعوت ہے کہ وہ ایک مقررہ تاریخ پر ایک مخصوص رسم الخط میں ایک مخصوص عبارت لکھ کر جمع کروائیں جو خطاط اس مقابلے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا اسے

مسجد نبویﷺ کا خطاط مقرر کیا جائے گا۔ اسے لگا جیسے اس کی خواہش پوری ہونے کا وقت آگیا ہے، وہ وہاں گیا تو دیکھا وہاں دنیا بھر سے ایسے ایسے خطاط اپنا کام لے کر آئے تھے کہ ان سب کے سامنے اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی۔ وہ گیا اور اپنا کام پیش کرنے کی خواہش کی لیکن کسی نے بھی اسے

سنجیدہ نہ لیا، نہ تو وہ معروف تھا اور نہ ہی اس کا کوئی کام ایسا تھا جو مشہور ہو، اور اوپر سے وہ کتابت کی جگہ سائن بورڈ اور بینر لکھنے والا اور پھر اہل زبان بھی نہیں، اور یوں اسے حصہ نہ لینے دیا گیا اور وہ مایوس ریاض لوٹ آیا۔ مقابلے کے اختتام کا وقت قریب تھا اور اس کی ایک بھی

نہیں چل رہی تھی، تقریباً اس نے دل چھوڑ ہی دیا تھا کہ اس کی دکان پر ایک عربی آیا اس نے کہا مجھے فلاں سائز کی تختی خط ثلث میں چاہیے، اس نے لکھ دی تو وہ حیران رہ گیا کہ اتنے چند ریالوں میں اتنا بہترین کام تو کوئی بھی نہیں کرتا۔ اس نے کہا تم میرے ساتھ چلو اور میرے لیے کام کرو وہاں

‏معاوضہ دگنا ملے گا۔ اس لڑکے نے انکار کردیا تو وہ عربی کہنے لگا میں ایک دکان مدینہ منورہ میں کھولنا چاہ رہا ہوں اگر کوئی دوسرا خطاط ہوا تو بتانا۔ جب اس لڑکے نے مدینہ منورہ کا نام سنا تو کہا مجھے لے چلو میں وہاں کام کروں گا۔ اسے ایک امید لگ گئی کہ شاید میرا وسیلہ بن جائے۔

یوں وہ


کسی نہ کسی طرح پہلے مہربان کفیل کو تقریباً ناراض ہی کرکے مدینہ منورہ چلا گیا۔ مقابلے کے اختتام کا وقت قریب تھا اور نئے کفیل کے ساتھ کام کاج بہت زیادہ تھا، دکان چھوڑ کر نکلنا بڑا مشکل تھا۔ نیا کفیل اس کے کام سے حد درجہ خوش تھا، اس جیسا کام تو سعودیہ میں کوئی دوسرا کرنے والا تھا

‏ہی نہیں۔ کفیل تو یوں تھا جیسے اس کا مرید ہوگیا ہو، اسے بہترین کھانے کھلاتا، جب بھی ملتا تو ہاتھ اور ماتھا چومتا، غرض بڑی آؤ بھگت کرتا۔ اس نے ایک دن کفیل سے اپنا مدعا بیان کیا کہ میں مسجد نبوی ﷺ میں خطاطی کے مقابلے میں حصہ لینا چاہتا ہوں میری کچھ مدد کردو۔ کفیل نے اس کی بات


‏مان لی اور اپنے جاننے والوں سے کہہ کہلوا کر اسے کسی طرح اس مقابلے تک لے ہی گیا، بڑی مشکل سے اس کا نام رجسٹر ہوا اور اسے مقابلے کے لیے بطورِ نمونہ پہلے ایک عبارت لکھوائی گئی پھر اسے شریک کیا گیا۔ یوں اس کی لکھی ہوئی تختی اور وہ اس مقابلے میں شریک ہوگئے۔


مقابلہ ختم ہوا اور 

نتائج کے اعلان کا دن تھا، دنیا بھر سے ماہر اساتذہ کے درمیان اس کا کام کیا حیثیت رکھتا تھا، بہرحال مقابلے کے نتیجے کا اعلان ہوا اور خلاف توقع وہ دنیا بھر کے ماہر خطاطوں کو پچھاڑ کر اوّل انعام کا حقدار ٹھہرا، امام الحرم اور جیوری نے جب اس خطاط کا نام اور ملک پوچھا تو کہنے لگا

شفیق الزمان، پاکستان سے"

شفیق الزماں 

پورے مجمعے پر خاموشی چھا گئی اور پورے عرب کے خطاط ایک دفعہ حیران رہ گئے کہ اجنبی نام اور غیر عرب کیسے اہل عرب سے جیت گیا، اور وہ شخص جیتا جسے مقابلے میں شریک ہی نہیں ہونے دیا جارہا تھا۔یوں جناب محترم شفیق الزمان کی خوش نصیبی اور سعادت کہ کہاں ایک


تختی لگانے کی خواہش اور کہاں در و دیوار منور کرنے کے لیے مسجد نبوی ﷺ کا خطاط مقرر کیا گیا۔ آہستہ آہستہ وہ وہاں کے تمام خطاطوں کے استاد بن گئے۔ آج سعودی عرب میں نصف صدی کے لگ بھگ عرصہ گزارنے کے بعد مسجد نبوی ﷺ کے در دیوار پر پچاسی فیصد کام شفیق الزماں کے ہاتھوں کا لکھا ہوا ہے



‏حتیٰ کہ جس دروازے (باب سلام) سے داخل ہوکر اور جس مقام پر پہنچ کر سارا عالم اسلام روضۂ اقدسﷺ پر حاضری اور سلام کی سعادت حاصل کرتا ہے ان تمام جگہوں کو شفیق الزمان کے قلم اور برش نے مزین کررکھا ہے۔ ایک عجمی کا خطاط المسجد النبوی ﷺ پانا ایک معجزہ اور ایک سعادت سے کم نہیں۔


آج حرم مکی کے امام، حرم مدنی کے خطاط سے ملنے میں سعادت اور فخر سمجھتے ہیں اور حرمین الشریفین کے تمام خطاطی کے کاموں کے لئے شفیق الزمان سے مشاورت کی جاتی ہے۔



نصیحت و حکمت

 نصیحت و حکمت



بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سے پوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ 

کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔ 


بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہاں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ 

شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔ 


جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اور تھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔


شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ 

بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟ 

شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟ کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔ 


بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔ 

بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ 


سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سورہے۔۔

کٹے ہوئے سروں کا مینار

 خوشحالی کی سرزمین میں خون کا ایک مینار جنوبی دہلی


کے انتہائی پُرسکون اور پرسکون حوز خاص انکلیو علاقے میں قرون وسطیٰ کا ایک ٹاور کھڑا ہے جو علاؤالدین خلجی علاؤالدین کے زمانے کا ہے جس نے عالمی فتح کا خواب دیکھا تھا اور اپنے دائرے میں استحکام کو یقینی بنانے کا جنون تھا۔ لاگت آئے گی تاکہ وہ اپنے پالتو جانوروں کے پراجیکٹس کے لیے زیادہ وقت دے سکے اس کا مطلب جرم اور سماج دشمن عناصر کو بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔ دائیں طرف کا مینار جسے چور مینار کہتے ہیں غالباً چوروں کے دلوں میں خوفِ خدا بپا کرنے کے لیے تھا۔ اس کی سرفہرست کہانیوں میں اب بھی یہ چوکور کھلے ہوئے ہیں جو علاؤالدین کے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کی نشاندہی کرتے ہیں اس افتتاح میں پھانسی پانے والے چوروں اور مجرموں کے سر دکھائے جاتے تاکہ ان پریشان کن عناصر کے ذہنوں میں ان کے مستقبل کے بارے میں ایک مثال قائم ہو جائے اگر وہ اپنے طریقے پر چلتے رہے تو اس کی ایک مثال کہ کیسے۔ اس نے اپنے عروج کے دنوں میں دیکھا ہوگا مغل دور کے کٹے ہوئے سروں کے ایک مختلف مینار کی مثال سے دیکھا جا سکتا ہے (بائیں طرف تصویر) بلاشبہ ایک دلخراش نظارہ۔ یہ آج کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ اس طرح کے ٹاور کے چاروں طرف انتہائی امیر اور مشہور لوگوں کے مکانات ہیں جن میں سے بہت سے لوگوں کو خود اس کے خونی ماضی کا بہت کم اندازہ ہوگا۔

نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے رو رو کر دعا کرنا

 ایک بار جبرائیل علیہ سلام نبی کریم کے پاس آئے تو آپ

صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ جبرایل کچھ پریشان ہے آپ نے فرمایا جبرائیل کیا معاملہ ہے کہ آج میں آپکو غمزدہ دیکھ رہا ہوں جبرائیل نے عرض کی اے محبوب کل میں اللہ پاک کے حکم سے جہنم کا نظارہ کرکہ آیا ہوں اسکو دیکھنے سے مجھ پہ غم کے آثار نمودار ہوے ہیں نبی کریم نے فرمایا جبرائیل مجھے بھی جہنم کے حالات بتاو جبرائیل نے عرض کی جہنم کے کل سات درجے ہیں 

ان میں جو سب سے نیچے والا درجہ ہے اللہ اس میں منافقوں کو رکھے گا

اس سے اوپر والے چھٹے درجے میں اللہ تعالی مشرک لوگوں کو ڈلیں گے 

اس سے اوپر پانچویں درجے میں اللہ سورج اور چاند کی پرستش کرنے والوں کو ڈالیں گے 

چوتھے درجے میں اللہ پاک آتش پرست لوگوں کو ڈالیں گے 

تیسرے درجے میں اللہ پاک یہود کو ڈالیں گے

دوسرے درجے میں اللہ تعالی عسائیوں کو ڈالیں گئ

یہ کہہ کر جبرائیل علیہ سلام خاموش ہوگئے تو نبی کریم نے پوچھا 

جبرائیل آپ خاموش کیوں ہوگئے مجھے بتاو کہ پہلے درجے میں کون ہوگا 

جبرائیل علیہ سلام نے عرض کیا 

اے اللہ کے رسول پہلے درجے میں اللہ پاک آپکے امت کے گنہگاروں کو ڈالے گے

جب نبی کریم نے یہ سنا کہ میری امت کو بھی جہنم میں ڈالا جاے گا تو آپ بے حد غمگین ہوے اور آپ نے اللہ کے حضور دعائیں کرنا شروع کی تین دن ایسے گزرے کہ اللہ کے محبوب مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جاتے اور دروازہ بند کرکہ اللہ کے حضور رو رو کر فریاد کرتے صحابہ حیران تھے کہ نبی کریم پہ یہ کیسی کیفیت طاری ہوئی ہے مسجد سے حجرے جاتے ہیں

گھر بھی تشریف لیکر نہیں جا رہے۔ جب تیسرا دن ہوا تو سیدنا ابو بکر سے رہا نہیں گیا وہ دروازے پہ آے دستک دی اور سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہیں آیا ۔ آپ روتے ہوے سیدنا عمر کے پاس آے اور فرمایا کہ میں نے سلام کیا لیکن سلام کا جواب نہ پایا لہذا آپ جائیں آپ کو ہوسکتا ہے سلام کا جواب مل جاے آپ گئے تو آپ نے تین بار سلام کیا لیکن جواب نہ آیا حضرت عمر نے سلمان فارسی کو بھیجا لیکن پھر بھی سلام کا جواب نہ آیا حضرت سلمان فارسی نے واقعے کا تذکرہ علی رضی اللہ تعالی سے کیا انہوں نے سوچا کہ جب اتنے اعظیم شحصیات کو سلام کا جواب نہ ملا تو مجھے بھی خود نھی جانا نھی چاھیئے

بلکہ مجھے انکی نور نظر بیٹی فاطمہ اندر بھیجنی چاھیئے۔ لہذا آپ نے فاطمہ رضی اللہ تعالی کو سب احوال بتا دیا آپ حجرے کے دروازے پہ آئی

" ابا جان اسلام وعلیکم"

بیٹی کی آواز سن کر محبوب کائینات اٹھے دروازہ کھولا اور سلام کا جواب دیا 

ابا جان آپ پر کیا کیفیت ھے کہ تین دن سے آپ یہاں تشریف فرما ہے 

نبی کریم نے فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے آگاہ کیا ہے کہ میری امت بھی جہنم میں جاے گی فاطمہ بیٹی مجھے اپنے امت کے 

گنہگاروں کا غم کھاے جا رہا ہے اور میں اپنے مالک سے دعائیں کررہا ہوں کہ اللہ انکو معا ف کر اور جہنم سے بری کر یہ کہہ کر آپ پھر سجدے میں چلے گئے اور رونا شروع کیا یا اللہ میری امت یا اللہ میری امت کے گناہگاروں پہ رحم کر انکو جہنم سے آزاد کر 

کہ اتنے میں حکم آگیا "وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى

اے میرے محبوب غم نہ کر میں تم کو اتنا عطا کردوں گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے.. 

آپ خوشی سے کھل اٹھے اور فرمایا لوگوں اللہ نے مجھ سے وعدہ کرلیا ہے کہ وہ روز قیامت مجھے میری امت کے معاملے میں خوب راضی کریں گا اور میں نے اس وقت تک راضی نہیں ہونا جب تک میرا آخری امتی بھی جنت میں نہ چلا جاے 

لکھتے ہوے آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ہمارا نبی اتنا شفیق اور غم محسوس کرنے والا ہے اور بدلے میں ہم نے انکو کیا دیا..؟؟

آپکا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر کرتے ہیں . آج اپنے نبی کی رحمت کا یہ پہلو کیوں نہ شیئر کریں. آئیں ایک ایک شیئر کرکہ اپنا حصہ ڈالیں . کیا پتہ کون گنہگار پڑه کہ راہ راست پہ آجائے


ڈاکٹر مورس کا اسلام قبول کرنے کا واقعہ

یہ واقعہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال پہلے پیش آیا تھا،

فرعون کے ڈوب کر مرنے کے بعد سمندر نے اس کی لاش کو اللہ کے حکم سے باہر پھینک دیا جبکہ باقی لشکر کا کوئی نام و نشان نہ ملا۔

مصریوں میں سے کسی شخص نے ساحل پر پڑی اس کی لاش پہچان کر اہل دربار کو بتایا۔ فرعون کی لاش کو محل
پہنچایا گیا، درباریوں نے مسالے لگا کر اسے پوری شان اور احترام سے تابوت میں رکھ کر محفوظ کر دیا۔

حنوط کرنے کے عمل کے دوران ان سے ایک غلطی ہو گئی تھی، فرعون کیوں کہ سمندر میں ڈوب کر مرا تھا اور مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کے جسم پر سمندری نمکیات کی ایک
‏تہہ جمی رہ گئی تھی، مصریوں نے اس کی لاش پر نمکیات کی وہ تہہ اسی طرح رہنے دی اور اسے اسی طرح حنوط کر دیا۔

وقت گزرتا رہا، زمین و آسمان نے بہت سے انقلاب دیکھے جن کی گرد کے نیچے سب کچھ چھپ گیا،
حتیٰ کہ فرعونوں کی حنوط شدہ لاشیں بھی زمین کی تہوں میں چھپ گئیں، ان کے نام صرف کتابوں،
ان کی تعمیرات اور لوگوں کے ذہنوں میں رہ گئے۔

اس واقعے کے دو ہزار سال بعد اس دنیا میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمدؐ تشریف لائے، ان پر نازل ہونے والی آخری کتاب میں فرعونوں کے قصے بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیے گئے تھے اور اسی سلسلے میں اس فرعون کا جسم محفوظ کرنے کی بابت آیت بھی نازل
ہوئی تھی جس کی سچائی پر سب اہل ایمان کا پختہ یقین تو تھا
لیکن وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ اس خدائی کا دعوے کرنے والے کی لاش کہاں محفوظ کی گئی اور کیسے اسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔

1871ء میں مصر کے ایک شہر الغورنیہ سے تعلق رکھنے والے غریب اور معمولی چور احمد عبدالرسول کو
فرعونوں کی حنوط شدہ لاشوں کی طرف جانے والے خفیہ راستے تک رسائی مل گئی۔ احمد عبدالرسول نوادرات چوری کرکے بیچا کرتا تھا۔ ایک دن وہ دریائے نیل کے کنارے کے قریب تبیسہ کے مقام پر اسی سلسلے میں پھر رہا تھا

جب اسے ایک خفیہ راستے کا پتہ چلا۔ وہاں وہ نوادرات کی چوری کے لئے جگہ کھود
رہا تھا کہ اسی دوران اسے کچھ لوگوں نے پکڑ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔

وہ جس جگہ کو کھود رہا تھا وہاں سے ملنے والے راستے کی جب مسلسل کھدائی کی گئی۔1891ء کو دوسری ممیوں کے ساتھ اسی غرق ہونے والے فرعون کی لاش بھی مل گئی۔ اس کے کفن پر سینے کے مقام پر اس کا نام لکھا ہوا تھا۔ ان
ممیوں کو ماہرین قاہرہ لے گئے۔ جب ان ممیوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا تو فرعون والی ممی پر جمی نمکیات کی تہہ سے تصدیق ہوگئی کہ یہ وہی فرعون ہے جسے اللہ نے پانی میں غرق کرکے بدترین انجام سے ہمکنار کیا تھا۔

یہ بہت بڑا واقعہ تھا اس کی تصدیق کے لیے دنیا بھر کے ماہرین آثار قدیمہ اور
سائنسدان مصر کی طرف امڈ پڑے۔ مختلف سائنسی ٹیسٹ کرنے کے بعد دنیا بھر کے سائنسدانوں نے تصدیق کر دی کہ دوسری سب لاشوں کی نسبت صرف فرعون کی لاش پر ہی سمندری نمکیات کی تہہ جمی ہوئی تھی۔ اس تصدیق کے بعد اسے فرعون کی لاش قرار دے کر عجائب گھر میں محفوظ کر دیا گیا۔

1982ء میں فرعون کی
ممی خراب ہونے لگی تو اس وقت کی مصری حکومت نے فرانس کی حکومت کو درخواست کی کہ فرعون کی ممی کو خراب ہونے سے بچایا جائے نیز جدید سائنسی ذرائع سے اس کی موت کی وجہ بھی معلوم کی جائے چنانچہ مصری اور فرانسیسی حکومت نے مل کر ممی کو فرانس لے جانے کا انتظام کیا،

جب فرعون کی لاش کو
فرانس پہنچایا گیا تو ائیر پورٹ پر اس دور کے فرانسیسی صدر بذات خود حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں، تمام وزراء اور فوج کے افسران کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے۔
فرعون کی لاش کا استقبال کسی عظیم زندہ بادشاہ کی طرح کیا گیا، فوجی دستوں نے سلامی دی۔ فرعون کی ممی کو ماہر ڈاکٹروں کی ٹیم کے
‏حوالے کیا گیا۔ اس ٹیم کی سربراہی ڈاکٹر مورس بوکائے نے کی تھی۔ مائیکرو سکوپک ٹیسٹوں کے ذریعے ممی کے تمام اعضاء کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کی لاش اور جسم میں سمندری ذرات ابھی تک موجود ہیں اور موت کی وجہ بھی پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔

ایک بادشاہ کی
موت پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہو!
یہ ڈاکٹر مورس کے لیے حیرت کی بات تھی۔ اس نے اس ممی کے بارے مزید جاننے کی کوشش کی تو اسے معلوم ہوا کہ اس بادشاہ کی موت کے حالات مسلمانوں کے نبی حضرت محمدؐ پر اتری کتاب قرآن پاک میں تفصیل سے درج ہیں۔ اسے علم تھا کہ جہاں سے یہ لاش ملی ہے وہ ایک
اسلامی ملک ہے چنانچہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ مصر پہنچا۔ وہ ایک سائنسدان تھا اس نے اس معاملے میں مصر کے ہی ایک سائنسدان سے ملاقات کی۔ اس سائنسدان نے قرآن پاک کھول کر اسے سورۃ یونس کی آیات 90 تا 92 کا ترجمہ لفظ بہ لفظ سنایا
وَ جَاوَزْنَا بِبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُهٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًاؕ-حَتّٰۤى اِذَاۤ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُۙ-قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(90)

 ترجمۂ کنز الایمان

اور ہم بنی اسرائیل کو دریا پار لے گئے تو فرعون اور اس کے لشکروں نے ان کا پیچھا کیا سرکشی اور ظلم سے یہاں تک کہ جب اسے ڈوبنے نے ا ٓ لیا بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں۔
ﰰ لْــٴٰـنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ كُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(91)

 ترجمۂ کنز الایمان

کیا اب اور پہلے سے نافرمان رہا اور تو فسادی تھا۔
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰیَةًؕ-وَ اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ(92)

 ترجمۂ کنز الایمان

آج ہم تیری لاش کو اُترا دیں گے کہ تو اپنے پچھلوں کے لیے نشانی ہو اور بیشک لوگ ہما ری آیتوں سے غافل ہیں



۔ فرعون کا خدائی کا دعویٰ، اس کا پانی میں ڈوب کر
مرنا اور پھر پانی سے نکال کر اس کی لاش کا حنوط ہو جانا اور پھر دوبارہ لاش کا ملنا اور پھر اس کی لاش کو جدید سائنسی دور میں دوبارہ محفوظ کیا جانا۔ سب کا اشارہ ایک جانب تھا اور بہت واضح تھا۔ ’’تجھے بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا نشان بنا دوں گا‘‘۔

فرعون کی لاش ایسے محفوظ کرکےدنیا کے سامنے لا کر رکھ دی گئی ہے کہ انٹرنیٹ کی ایک کلک پر، رسائل و جرائد پر، ٹی وی چینلز پر اور عجائب گھر میں اربوں انسانوں کی آنکھوں کے سامنے کریہہ اور پچکی قابل ترس حالت میں موجود ہے۔ عبرت کے لیے، سوچنے کے لیے کہ عبادت کے لائق اور ہمیشہ رہنے والا وہی ہے جو سب کا خالق اور
رازق ہے۔ ڈاکٹر مورس نے آیات کا ترجمہ سنا تو اسی وقت پکار اٹھا قرآن سچا ھے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو گیا۔۔۔۔۔
کروڑوں درود وسلام ہو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہ ، اہل بیت، امھات المؤمنین اور تمام صحابہ کرام  پر

بہلول اور حضرت جنید بغدادی

                  Click here

  

بہلول اور حضرت جنیدبغدادئ





      (Qazi Nadeem Ul Hassan, Bahawalpur)

بہلول نے حضرت جنيد بغدادی سےپوچھا شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟

کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔

بہلول نے کہا، لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اپنے دامن کو جھاڑا اور وہا ں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔

شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب پھر وہاں پہنچے پھر سلام کیا۔

بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہوں گے۔

جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اورتھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔

شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔

بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کون ہو؟

شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟

کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔

بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائےگا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔

بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیھودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔

سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے،کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے...!

ایک دفعہ کسی حاملہ ہرن کو بچہ جنم دینے کی حاجت پیش آئی

 ایک دفعہ کسی حاملہ ہرن کو بچہ جنم دینے کی حاجت پیش آئی


، تو اس نے دریا کے کنارے پر موجود جنگل کی راہ اختیار کی۔

 پھر یوں ہوا کہ اچانک موسم خراب ہو گیا آسمان سے بجلی گری تو جنگل میں آگ لگ گئی، گھبراہٹ میں ہرن نے جان بچانے کیلئے آس پاس دیکھا تو ایک شکاری نشانہ بنا رہا تھا،  دوسری طرف شیر تھا۔

 ہرن کو  الجھن ہوئی کہ اس پھیلتی ہوئی آگ میں جل کر مرنا ہو گا  یا دریا میں ڈوب کر جان دینی ہو گی،  یا شکاری مار دے گا ، یا پھر شیر اپنی بھوک مٹانے کیلئے نوالہ بنا دے گا۔ ہر سمت خطرہ ہے فرار کی کوئی راہ نہیں، اُس وقت ہرن کے اختیار میں جو تھا

 وہ کرنے کا فیصلہ کیا، یعنی پیدائش پر توجہ مذکور کی پھر ایسا ہوا کہ شکاری نے نشانہ لگایا تو آسمان پر بجلی چمکی، اُس کی آنکھیں اچانک بند ہو گئیں اور تیر شیر کو جا لگا، زور دار مینہ برسا جنگل میں پھیلتی آگ ایک دم بجھ گئی۔ ہرن کو اس کے خالق نے بچا لیا۔


زندگی میں جب کبھی مشکلات و مصائب چاروں طرف سے گھیر لیں تو اس وقت وہ کام کریں، جو آپ کر سکتے ہیں، باقی چیزیں اس ذات کیلئے چھوڑ دیں۔ جس نے نظامِ عالم کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہی آپ کی حفاظت کرے گا ان شاء اللّه۔ ....

دنیا کے طاقتور ترین شخص کا خطاب پانےوالا امریکی باڈی بلڈر Ronnie Coleman


دنیا کے طاقتور ترین شخص کا خطاب پانےوالا امریکی باڈی بلڈر Ronnie Coleman ،

جس نے اٹھاٸیس چیمپین شپ اپنے نام کیں اور آٹھ بار مسٹر اولمپین کا ٹائٹل جیتا۔

کبھی منوں وزن اٹھایا کرتا تھا۔
آج ہسپتال میں پڑا دو کلوں وزن اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔
ساری جوانیاں، ساری قوتیں اور طاقتیں، بادشاہیاں اور سلطنتیں فقط اس ایک پروردگار کی ہیں۔۔
  فقط اسی کی قوت و طاقت ہمیشہ رہے گی..
 باقی سب قوتیں ختم ہوجاٸیں گی۔۔ 
ہر عروج کو زوال ہے صرف اس خدا کی سلطنت لازوال ہے۔
اسی سے دل لگانے کی ضرورت ہے۔

 

ابلیس کی نسل کی ابتدا جس جن سے ہوئی اس کا نام "طارانوس” کہا جاتا ہے۔


 ابلیس کی نسل کی ابتدا جس جن سے ہوئی اس کا نام 


 "طارانوس” کہا جاتا ہے۔ طارانوس ابلیس سے ایک لاکھ چوالیس ہزار سال قبل دنیا پہ موجود تھا۔ طارانوس کی نسل تیزی سے بڑھی کیونکہ ان پہ موت طاری نہیں ہوتی تھی اور نہ بیماری لگتی تھی البتہ یہ چونکہ آتشی مخلوق تھی تو سرکشی بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس جنوں کی نسل کو پہلی موت فرشتوں کے ہاتھوں پیدائش کے 36000 سال بعد آئی جس کی وجہ سرکشی تھی یہاں پہلی بار موت کی ابتدا ہوئی اس سے پہلے موت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں "چلپانیس” نامی ایک نیک جن کو جنات کی ہدایت کا ذمہ سونپا گیا اور وہ ہی شاہ جنات قرار پائے اس کے بعد "ہاموس” کو یہ ذمہ داری دی گئی۔ ہاموس کے دور میں ہی "چلیپا” اور "تبلیث” کی پیدائش ہوئی۔ یہ دونوں اپنے وقت کے بے حد بہادر جنات تھے اور ان کی قوم نے چلیپا کو شاشین کا لقب اس کے شیر کے جیسے سر کی وجہ سے دیا۔ ان دونوں جنات کی وجہ سے ساری قوم کہنے لگ گئی کہ ہمیں اس وقت تک کوئی نہیں ہرا سکتا جب تک شاشین اور تبلیث ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان دونوں کی وجہ سے قوم کے جنات آسمان تک رسائی کرنے لگے اور تیسرے آسمان پر جا کر شرارت کر آتے تھے۔ ایسے میں حکم الٰہی سے فرشتوں نے ان پر حملہ کیا اور عبرتناک شکست دی۔ اسی دوران جب "عزرائیل علیہ السلام” کو ابلیس نے دیکھا تو سجدہ میں گر گیا۔

ابلیس شروع سے ہی ایک نڈراورذہین بچہ تھا اس میں باپ کی بہادری اور ماں کی مکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اس نے ملائکہ کے ساتھ جا کر توبہ کا باقاعدہ اعلان کیا اور پھر فرشتوں سے فیض علم حاصل کرنے لگا۔ علم حاصل کرنے اور ریاضت کا یہ عالم تھا کہ پہلے آسمان پہ "عابد”، پھر دوسرے آسمان پر "زاہد”، تیسرے آسمان پر "بلال”، چوتھے آسمان پر "والی”، پانچویں آسمان پر "تقی” اور چھٹے آسمان پر "کبازان” کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہ فرشتوں کو سکھاتا تھا۔ ساتویں آسمان پہ ابلیس بقع نور میں رہا۔ ہفت افلاک کے سب ملائکہ کا معلم قرار دیا گیا یہاں تک پہنچ کر ابلیس نے اپنی عاجزی اور ریاضت کی انتہا کردی۔

کم و بیش ابلیس نے چودہ ہزار سال عرش کا طواف کیا یہاں اس نے فرشتوں میں استاد/سرادر "عزازیل” کے نام سے شہرت پائی کم و بیش تیس ہزار سال مقربین فرشتوں کا استاد رہا۔ ابلیس کے درس و وعظ کی میعاد کم و بیش بیس ہزار سال ہے۔ فرشتوں کے ساتھ قیام کی مدت کم و بیش اسی ہزار سال ہے۔

ابلیس کو حکم ہوا کہ داروغہ جنت "رضوان” کی معاونت کرو اور اہل جنت فرشتوں کو اپنے علم و فضل سے بہرہ ور کرو یوں ابلیس کو جنت میں داخلے کا پروانہ مل گیا اور جنت میں بھی اپنے علم سے داروغہ جنت رضوان کو سیراب کیا اور یوں جنت رضوان کی کنجیاں ابلیس کے پاس رہیں۔ روایات کے مطابق ابلیس 40 ہزار سال تک یہ فرض خزانچی انجام دیتا رہا۔ یہی وہ مقام اعلیٰ ترین جنت رضوان ہی تھا جہاں ابلیس نے پہلی بار بادشاہت کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ اس وقت ابلیس کے پاس ہفت اقلیم، افلاک، جنت و دوزخ سب کا اختیار تھا اور اس نے چپے چپے پہ سجدے کیے تھے۔ مگر یہاں پہ ابلیس عاجزی سے پہلی بار بھٹکا اور خود کو بادشاہ بنانے اور رب بن جانے کے خواب دیکھنا شروع کیے۔ کئی ملائکہ کے سامنے ربوبیت کی بابت بات بھی کی مگر ملائکہ کے انکار کے سبب چپ ہو گیا اور یوں نظام چلتا رہا مگر اس سب سے اللہ تعالیٰ کی ذات بے خبر نہ تھی۔

پھر آدم علیہ السلام کی تخلیق کا مرحلہ آیا جیسے قرآن مجید میں واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ابلیس آدم علیہ السلام کو جزو جزو مرحلہ وار مختلف اقسام کی مٹی سے تخلیق ہوتا دیکھتا رہا اور چپ رہا مگر جیسے ہی اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا نائب ہے تو اس نے واویلا کیا عبادات اور اطاعت کا واسطہ دیا پھر طنز کیا کہ مجھ جتنی عبادت کس نے کی ہے اور آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکاری ہوا۔

تب اللہ تعالیٰ نے کہا نکل جا شیطان مردود۔لعنتی قرار پانے کے بعد ابلیس نے اپنی عبادات اور ریاضت کا رب کریم سے عوض مانگا جس پر اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ایک وقت معلوم تک مہلت فراہم کی۔ جس پر ابلیس نے اولادِ آدم کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا کر اپنا پیروکار بنانے کا دعویٰ کیا جس پر رب کریم نے فرمایا کہ جو متقی اور پرہیزگار ہوں گے تو ان کو گمراہ نہیں کر پائے گا۔

ابلیس کے اس لعنتی کام میں اس کے پانچ ساتھی ہیں۔


1۔ ثبر » اس کے اختیار میں مصیبتوں کا کاروبار ہے جس میں لوگ ہائے واویلا کرتے ہیں گریبان پھاڑتے ہیں منہ پہ طمانچے مارتے ہیں اور جاہلیت کے نعرے لگاتے ہیں۔

2۔ اعور » یہ لوگوں کو بدی کا مرتکب کرتا ہے اور بدی کو لوگوں پہ اچھا اور پسندیدہ کر کے دکھاتا ہے۔

3۔ مسوّط » یہ کزب، جھوٹ اور دروغ پہ مامور ہے جسے لوگ کان لگا کر سنیں۔ یہ انسانوں کی شکل اپنا کر ان سے ملتا ہے اور انھیں فساد برپا کرنے کی جھوٹی خبریں سناتا ہے۔

4۔ داسم » یہ آدمی کے ساتھ گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر والوں کے عیب دکھاتا ہے اور آدمی کو گھر والوں پہ غضبناک کرتا ہے۔

5۔ زکنیور » یہ بازاروں کا مختار ہے بازاروں میں آ کر یہ بددیانتی کے جھنڈے گاڑتا ہے۔ بازاروں میں برائیوں اور فحاشی پہ ورغلاتا ہے۔

ابلیس کا آدم علیہ السلام کو سجدے سے انکار کا جزبہ حسد تھا کہ جس نے اسے مجبور کیا کہ میری جگہ آدم (خاک) کو کیوں ملی۔ یہ اس کا جزبہ تکبر اور غرور تھا کہ میں اعلیٰ ہوں اور اس ایک سجدے کے انکار کی بات نہیں تھی بات اطاعت سے سرکشی کی تھی، شرک کی تھی۔ ابلیس نے دل میں خود کو "رب” مان لیا تھا۔ اسی شرک عظیم کی بدولت ابلیس تا قیامت رسوا و لعنتی ٹھہرا اور اولادِ آدم کو بھٹکانے کیلئے آزاد قرار پایا۔


حاصل نتیجہ یہ ٹھہرا کہ رب کریم کو انسان کی عبادات عاجزی علم و دانش سے کچھ غرص نہ ہے۔ رب کریم صرف دیکھتا ہے کہ دل میں اطاعت و فرمانبرداری کتنی ہے۔ اسی بنیاد پہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے درجے قرار پاتے ہیں۔


منابع و ماخذ: صحیح بخاری باب الفتن و اشراط، صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ، سنن ابی داؤد،کتاب شرح سیوطی، تفسیر کبیر امام رازی، مستدرک حاکم، کتاب حکم، نہج البلاغہ سید رضی، شرح نہج البلاغہ ابن حدید، کتاب غرر الحکم ابن ہشام، کتاب توحید شیخ صدوق.....