کتے کی 10 صفحات

 ﺣﻀﺮﺕ ﺣﺴﻦ ﺑﺼﺮﯼ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ .

ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ 10 ﺻﻔﺎﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯿﮟ ﮐﮯ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﻔﺖ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ  وه بزرگی تک پہنچ جاتا ہے۔


1. ﮐﺘﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺟﻮ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﻗﻨﺎﻋﺖ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ، ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻗﺎﻧﻌﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺑﺮﯾﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


2. ﮐﺘﺎ ﺍﮐﺜﺮ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺻﺎﻟﺤﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ  ﮨﮯ .


3. ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮐﺘﺎ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻏﺎﻟﺐ ﺁ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺭﺍﺿﻌﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


4. ﺍﺳﮑﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﯾﮧ ﺻﺎﺩﻗﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


5. ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻗﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﮯ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﯿﻨﺘﺎ، ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻣﺴﮑﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


6. ﺟﺐ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﻭﺭ ﺟﻮﺗﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﯿﭩﮫ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﺩﻧﯽٰ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻣﺘﻮﻓﻘﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


7. ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮑﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺳﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ، ﭘﮭﺮ ﻣﺎﻟﮏ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﭨﮑﮍﺍ ﮈﺍﻝ ﺩﮮ، ﺗﻮ ﯾﮧ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺁ ﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﯾﮧ ﺧﺎﺷﻌﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ ۸


8. ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﯾﮧ ﻣﺘﻮﮐﻠﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


9. ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﻣﺤﺒﯿﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ .


10. ﺟﺐ ﻣﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﯿﺮﺍﺙ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ، ﯾﮧ ﺯﺍﮨﺪﯾﻦ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﮨﮯ ...

اللہ تعالی نیکی کرنے اور نیکی کی تلقین کی توفیق عطا فرمائے آمین ثمہ امین


بانو قدسیہ کے قلم سے

 بانو قدسیہ کے قلم سے

عورت

جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے۔ اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ھے۔باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھےاور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ھے واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے

یہ ھوس بڑھتے بڑھتے اماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر اسی فیصد مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کرتے ہوئے موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری تو ھے۔''

لیکن اگر عورت گھر سے باھر ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال کئیے باہر نکلیں اور مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے

"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو

ھم نے سرِبازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"

مرد

میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا آپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاؤں گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔

*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔

( بانو قدسیہ)


غدار محل

 یہ محل جس کے کھنڈرات کی آپ تصویر دیکھ رہے ہیں آج سے تین سو سال پہلے انتہائی خوبصورت اور بہت بڑا محل ہوا کرتا تھا ۔

لیکن جیسے ہی اس محل کا مالک مرا ، اس کے بعد کسی نے اس محل میں آباد ہونے کی کوشش نہ کی ۔

لوگوں کو اس محل سے شدید نفرت تھی اور یہ نفرت ایسی تھی کہ تین سو سال گزرنے کے بعد بھی اس نفرت میں کمی نہیں آرہی بلکہ اس سے نفرت کا اظہار لوگ پہلے سے بھی زیادہ شدت سے کرنے لگے ۔

مثال کے طور پر جب کوئی شخص اس محل کے قریب سے گزرتا ہے تو آج بھی اس کے اوپر تھوک کر گزرتا ہے ۔

حتیٰ کہ کچھ لوگ نفرت میں اس قدر انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اس کی دیواروں پر باقاعدہ جوتے مارے جاتے ہیں ۔

انسانوں کی تاریخ میں یہ پہلی عمارت ہے جس سے نفرت کی جاتی ہے اور یہ بھی ایک تاریخی ریکارڈ ہے کہ کسی عمارت کو اس سے پہلے اتنا نفرت انگیز نام نہیں دیا گیا ۔ 

اس کو اس ملک کی گورنمنٹ نے سرکاری طور پر اسے "غدار محل" کا نام دے رکھا ہے ۔

یہ بات تو شاید آپ کے لئے اتنی بڑی نہ ہو کہ کسی ملک میں کوئی حکومت کسی تعصب کی وجہ سے یا کسی نفرت کی وجہ سے ایسا نام دے سکتی ہے ۔

لیکن آپ کے لئے حیرت کی بات ہو گی کہ سب سے بڑے عالمی ادارے یونیسکو نے بھی اسے غدار محل کا نام دے رکھا ہے ۔

اس عمارت کو نہ تو استعمال کیا جا سکتا ہے نہ ہی اسے توڑا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کا نام تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ 

اس بات سے اندازہ لگا لیجئیے کہ وہ شخص کس قدر بدبخت تھا کہ جس کی نفرت تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئی ہے ۔

اس دنیا میں آج تک کروڑوں اربوں انسان گزر چکے ہیں جن سے ان کے جرائم اور گناہوں کی وجہ سے شدید نفرت کی جاتی ہے لیکن کسی کو بھی تاریخ نے اتنی نفرت سے یاد نہیں کیا کہ اس کے گھر کے نام کو بھی نفرت کے نام میں تبدیل کر دیا گیا کہ اس شخص نے غداری کی تھی ۔

تاریخ نے جس طرح اسے یاد رکھا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غداری ایک ایسا گناہ اور جرم ہے جسے دنیا کبھی بھی معاف نہیں کرتی ۔

انتہائی مزے کی بات ہے کہ اس غدار شخص نے جن لوگوں کے لئے اپنی قوم اور ملک سے غداری کی انہی لوگوں نے اسے تاریخ کا سب سے بڑا غدار قرار دیا اس کے محل کو غدار کے محل کا نام دیا وہ شخص "میر جعفر" تھا اور اس کا یہ محل بھارت کے مغربی بنگال میں واقع مرشد آباد کے مقام پر ہے ۔

غدار غداری کر جاتے ہیں لیکن تاریخ انہیں معاف نہیں کرتی ان کو عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے..!!