لوہار کی توبہ

 ایک لوہار نے  شیطانی اور ظالم جوانی ( بُرے کاموں میں جوانی ) گزاری ۔

  اب اُس نے  اپنا وقت اور زندگی خدا کے لئے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

 کافی سالوں تک اس نے اچھے کام کیے ، دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا ، پرہیز گاری اپنائی۔

  مگر اسے ابھی تک یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ خدا اس سے راضی ہو گیا ہے 

  اس بارے میں اس کی پریشانی دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔

  ایک شام ، ایک دوست جو اس سے ملنے آیا اور اس کی حالت زار کا علم ہوا تو اس نے لوہار سے کہا 

  

" یہ واقعی عجیب ہے ...!   آپ کے فیصلہ کرنے کے بعد آپ کی زندگی اور طبیعت مزید خراب ہوگئی ہے 

 میں آپ کے ایمان کو کمزور نہیں کرنا چاہتا ، لیکن روحانی راہ پر آپ کی ساری کوششوں کے باوجود ، کچھ بہتر نہیں ہوا ..."

 

  لوہار نے فوراً جواب نہیں دیا ، 

  اس نے کئی بار ایسا ہی سوچا تھا اور سمجھ نہیں آیا تھا کہ اس کی طبیعت کیوں اچانک بگڑ جاتی ہے اور کیوں اسے منزل نہیں مل رہی۔

  

   وہ اپنے دوست کو جواب دینا چاہتا تھا مگر اسے جواب نہیں مل رہا تھا آخر اس نے بات شروع کردی اور آخر کار وہ جواب مل گیا جس کی اسے ضرورت تھی

   

    لوہار نے جواب دیا : 

    

    " میری دکان میں لوگ کچا اور بے ڈھنگا لوہا لاتے تھے اور مجھے انھیں تلوار یا ان کی مطلوبہ شکل کا لوہا دینا ہوتا تھا 

    

      کیا آپ جانتے ہیں کہ مییں یہ کیسے کرتا تھا ؟

      

       میں اس لوہے کو  گرم ترین آگ میں ڈال دیتا تھا 

       

         پھر میں  بے دردی سے سب سے بھاری ہتھوڑا اٹھاتا  اور ایک کے بعد ایک اس کو مارتا  

         یہاں تک کہ وہ بے ڈھنگا لوہا وہ شکل اختیار کر لیتا ہے جو میں چاہتا تھا

         

         پھر میں  اسے ٹھنڈے پانی کے ایک برتن میں ڈال دیتا 

         پوری دکان بھاپ سے بھر جاتی تھی 

          درجہ حرارت میں اس اچانک تبدیلی کی وجہ سے لوہا  تکلیف اٹھاتا مگر میں تب تک اس عمل کو دہراتے رہتا

           جب تک مجھے تلوار یا مطلوبہ شکل نا ملتی "

        

 لوہار کچھ دیر خاموش رہا ، پھر جاری ہوا:

 

  کبھی کبھی مجھے ملنے والا لوہا اس عمل کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا

   گرمی میں ہتھوڑا مارنے پر وہ ٹوٹ جاتا تھا

   کبھی وہ ٹھنڈے پانی میں مطلوبہ شکل نا دیکھاتا  

   

    اور مجھے پتا چل جات کہ اس لوہے سے مطلوبہ شکل نہیں مل سکتی  "

    

     لوہار تھوڑا رکا اور پھر جاری ہوا :

     

      میں جانتا ہوں کہ خدا مجھے تکلیف کی آگ میں غرق کررہا ہے۔

       میں نے تکلیف کے ہتھوڑے کی مار کو قبول کیا ہے

       

        بعض اوقات مجھے بہت سردی محسوس ہوتی ہے۔  یہ ایسے ہی ہے جیسے میں ایک لوہا ہوں اور مجھے اچانک ٹھنڈے پانی میں ڈال دیا گیا ہے 

          لیکن میں صرف یہ چاہتا ہوں:

 اے میرے خدا !

  میں وہ شکل اختیار کرنا چاہتا ہوں جو آپ کو مطلوب ہے

   اپنی پسند کے مطابق جاری رکھیں ،

    جب تک ضروری ہو جاری رکھیں ،

     لیکن کبھی بھی 

     مجھے بیکار لوہے کے ڈھیر پر مت پھینکنا "


اگر آپ خدا کی راہ پر چلتے ہیں اور مشکلات آرہی ہیں تو خدا پر بھروسہ رکھیں وہ آپ کو ایسی شکل میں لا رہا ہے جو اسے پسند ہے 


_____________________________________________




حیرت انگیز ریسرچ"

           ایک جاپانی پروفیسر کی حیرت انگیز ریسرچ"


              ******* بالخصوص آپ کیلئے ********

                         ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


معدے کی تیزابیت کا اصل سبب الٹا سیدھا کھانا نہیں بلکہ بے چینی ہے ۔


بلڈ پریشر کی وجہ کھانے میں نمک کی زیادتی نہیں بلکہ احساسات وجذبات کا عدم انضباط ہے ۔


کولسٹرول کی زیادتی کا اصلی سبب چربی دار کھانے نہیں بلکہ سستی ہے ۔


سینہ سے جڑے پرابلم کا اصلی سبب آکسیجن کی کمی نہیں بلکہ شدت غم ہے ۔


شوگر کی بیماری کی وجہ جسم میں گلوکوز کی زیادتی نہیں بلکہ انانیت اور اپنے موقف پر بےجا شدت ہے ۔


جگر کی بیماریوں کا سبب نیند میں بے,,,,, ضابطگی اور نفسیاتی خلل نہیں بلکہ مایوسی اور دل شکستگی اس کے اسباب میں شامل ہے ۔


دل کی بیماریوں اور شرایین کے انسداد کا سبب دوران خون کی کمی نہیں بلکہ اطمینان وسکون کا فقدان ہے ۔


یہ بیماریاں جن اسباب سے پیدا ہوتی ہیں ان کا تناسب درج ذیل ہے


50% روحانی اسباب


25% نفسیاتی اسباب


15% معاشرتی اسباب


10% نامیاتی اسباب


اس لیے اگر آپ ایک صحتمند زندگی کے خواہاں  ھیں  تو اپنے دل ودماغ کی حفاظت کرو اور کینہ ، حسد ، جلن ، نفرت ، غصہ ، تکبر ، انتہاپسندی ، سستی ،گالم گلوچ ، اور دوسروں کی تحقیر وتذلیل سے گریز کرو"""""""""""


اور لوگوں کے ساتھ درگزر سے کام لو ، پورے یقین واذعان کے ساتھ اللہﷻ کا ذکر کرو ، پورے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرو ، ہمیشہ باوضو رہو ، لوگوں کے تئیں حسن ظن رکھو خواہشات نفسانی سے پرہیز کرو ، ہمیشہ صدقہ وخیرات کرتے رہو اور اس قول الہٰی  کو مت بھولو کہ ,,ألا بذكر الله تطمئن القلوب (الرعد 28 )

یقینا یاد الہیٰ  سے دلوں کو سکون ملتا ھے,

اور پیارے حبیب,خاتم النبیین,سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےاس فرمان کو بھی یاد رکھو کہ ,اپنی بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو ۔))))((((

گولڈن پلوور

 ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﯽ ﻋﺠﺐ ﻧﺸﺎﻧﯽ

ﮔﻮﻟﮉﻥ ﭘﻠﻮﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺠﺮﺕ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ

ﺳﮯ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﮨﮯ . ﯾﮧ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺍﻻﺳﮑﺎ ﺳﮯ

ﮨﻮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﺗﮏ 4000 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﮐﯽ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮ ﮐﮯ

ﮨﺠﺮﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﮧ ﭘﺮﻭﺍﺯ 88 ﮔﮭﻨﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ

ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ,ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﭨﮭﮩﺮﺗﺎ . ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ

ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺰﯾﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﺗﯿﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺳﮑﺘﺎ .ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﺴﺘﺎﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ . ﺟﺐ

ﺳﺎﺋﻨﺴﺪﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭘﺮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ

ﭘﺘﮧ ﭼﻼ ﮐﮧ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﻔﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ

ﻟﺌﮯ88 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ‏( fat ‏) ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ .ﺟﺒﮑﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ

ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﮯ ﺍﯾﻨﺪﮬﻦ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ

ﺗﻘﺮﯾﺒﺎ 70 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ .ﺍﺏ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ

ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ 800 ﮐﻠﻮﻣﯿﭩﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ

ﮐﺮ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ . ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ, ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ

ﺷﺸﺪﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ . ﺍﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﮐﯽ

ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ v ﮐﯽ ﺷﯿﭗ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ اور اپنی پوزیشن چینج کرتے رہتے ہیی,ﺟﺲ ﮐﯽ

ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﯽ ﺭﮔﮍ ﮐﺎ ﮐﻢ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺑﻨﺴﺒﺖ

ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﺮﻭﺍﺯ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ . ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﯽ %23 ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺳﯿﻮ

ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ , ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮨﻮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﺟﺰﯾﺮﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﯽ

ﮨﮯ 6. ﯾﺎ 7 ﮔﺮﺍﻡ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﯾﺰﺭﻭ ﻓﯿﻮﻝ ﮐﯽ

ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ, ﺟﻮ ﮨﻮﺍﻭﮞ ﮐﺎ ﺭﺥ

ﻣﺨﺎﻟﻒ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﺁﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ .ﺍﺏ

ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﻮﻥ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺀﺕ ﮐﺮ

ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .ﺍﯾﮏ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ

ﺳﻔﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯﮐﺘﻨﯽ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ .ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﻥ

ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ .ﺍﺗﻨﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﯽ ﺍﺳﮯ ﮨﻤﺖ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ

ﺍﻭﺭ ﭼﮑﻨﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺎ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ

ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﮧ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ v ﺷﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ

ﻭﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﻧﺮﺟﯽ ﺑﭽﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .